Poor Boy from Sahiwal Becomes a Billionaire in America | edible arrangements

ہم اگر محنت کرتے رہیں اور سمت سہی رہے ان کا صلہ کہی نہ کہی ملیں گے اس ویڈیو میں میں آپ کو انتہائی حیرت انگیز کہانی سنانے جا رہا ہوں جو انتہائی دلچسب اور موٹویشنل بھی ہیں یہ کہانی Edibale Arrangment comuney کے مالک اور سی ای او طارق فرید کی ہے طارق فرید ایک امریکن پاکستانی ہے ان کا تعلق پاکستان کے شہر ساہیوال کے ایک گاوں سے ہے طارق فرید اس وقت امریکہ کی امیر ترین لوگوں میں سے ہیں ان کی کمپونی ہر سال اربوں روپیوں کی پرفیٹ کماتی ہے ۔ ان کی کمپنی فلوں کو گلستوں میں سجا کر بیجتی ہے جیسے کی پھولوں کا گلدستہ ہوتا ہے طارق فرید نے پھولوں کی جگہ پھل لگا کر بھیجنا شروع کر دیا جو کی بلکل پھولوں کی طرح لگتی ہے لیکن اس گلدستے کو لوگ کھا بھی سکتے ہیں یہ آئیڈا امریکہ میں کلک کر گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے طارق فرید کی زندگی تبدیل ہو گئی لیکن دوستوں طارق فرید سونے کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوئے تھے ان کی کہانی انتہائی دلچپ ہے طارق فرید 1969 ء میں سائیوال کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے یہ چھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں انکے مطابق ان کے والد کو پھل کھانے کا بے حد شوق تھا۔ان کے والد ان کے گرمیوں میں آم لے کر آتے تھے یہ لوگ ٹب میں برف ڈالتے اور پوری فیملی مل کر آم کھایا کرتی تھی اسی طرح یہ لوگ مختلف پھلوں کو شوق سے کھاتے تھے لیکن ان کو یہ نہیں پتا کہ یہ پھل ایک دن ان کی زندگی تبدیل کر دے گی ،طارق فرید جب 12 سال کے تھے تو ان کے والد کو امریکہ جانے کا موقع ملا ان کے والد کے ایک دوست امریکہ میں رہ رہے تھے اور یہی دوست طارق کی پوری فیملی کو امریکہ بولانے کے لے تعاوں کرنے کو تیار تھے طارق کے والد امریکہ جانے کا فیصلہ کر لیا طارق کے مطابق ان کو امریکہ جانے سے صرف ایک مہینہ پہلے پتہ چلا کہ انکی پوری فیملی اور یہ امریکہ شفٹ ہو رہے ہیں ان کی والدہ نے ان کے لئے اور ان کے بہن بھائیوں کے لئے کچھ پنٹس اور ٹی شرٹس خریدی اور بس یہ فیملی پیسے والی نہیں تھی اور ان کو پتہ تھا کہ ان کو شروعات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا دوستوں 1981 ء میں 11 سال کی عمر میں طارق فرید امریکہ پہچ گئے یہ 8 فیملی ممبرز تھے ۔ نیا ملک اور ان میں سیٹلٹ ہونا انتہائی مشکل کام تھا ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے ، طارق کے والد ایک میکنک کے حیثیت سے کام کرنا شروع ہو گئے اور شام میں میکڈونلز میں کام کیا کرتے تھے تاکہ اپنے فیملی کا پیٹ بھر سکے طارق کے مطابق ایک دفعہ امریکہ میں ان کا آم کھانے کا دل چاہا۔یہ لوگ آم خریدنے ایک سٹور گئے لیکن وہاں آم انتہائی مہنگے تھے ایک آم ایک ڈالر کا تھا اور طارق کے والد پیسہ ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے اور یہ آم بھی خرید نہین سکے طارق فرید سب بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے اور اپنے گھر کی مالی حالت کو دیکھ کر یہ مالی سپورٹ کرنا چاہتے تھے دوستوں باہر کسی بھی نوکری کو بھرا نہیں سمجھا جاتا چاہئے آپ سکیورٹی گارڈ ہو یا سیلز مین آپ کو اپنے محنت کے اچھے پیسے مل جاتے ہیں طارق نے بھی پڑھائی کے ساتھ ساتھ چھوٹی موٹی نوکری ڈھنڈنا شروع کر دیا اپنے گاؤں میں اچھےخاصے زندگی گزارنے والے طارق نے گھروں میں اخبار ڈلیور کیا رسٹورنٹ میں برتن دھوے لوگوں کے لان کی گاس کاٹی اور برگر کنگ میں بھی نوکری کی یہ تمام پیسے اپنے والدہ کو دے دیا کرتے تھے 1886 میں جب ان کی عمر 16 ،17 سال کے تھے طارق کے والد نے 6 ہزار ڈالرز کی ایک چھوٹی سی پھولوں کی دکان خریدلی یہ پیسے بھی انہون نے ادھار لے تھے طارق بھی اسی دکان میں کام کرنا کرنے لگے دوستون وقت گزرتا گیا اور طارق کی فیملی کا گزارہ اچھے طریقے سے ہونا شروع ہو گیا لین 1999 ء میں طارق اور ان کی فیملی کی زندگی تبدیل ہونے جاری تھی طارق کے ذہن میں ایک آئیڈا پیدا ہوا انہؤں نے سوچا کہ یہ لوگ جیسے پھولوں کے گلدستہ بنا کر بھیجتے ہیں کیونہ ہم پھولوں کے گلدستے بنا کر بھیچنا شروع دے دوستوں ایک اچھا آئیڈیا انسان کی زندگی تبدیل کر سکتا ہے اس وقت کچھ کمپنیز ایسے گلدستے بنا تو رہی تھی لیکن وہ نہ ہونے کے برابر تھی طارق اور ان کی فیملی ویسے ہی پھل کھانے کے بے حد شوقتین تھے اور انہوں نے فوراً اس آئیڈیا پر کام کرنا شروع کر دیا انہوں نے تجربے کے طور پر اپنے کچھ کسٹمرز کو پھلوں کے گلدستے فری میں دینا شروع کر دیا کسٹمرز متاثر ہتے اور کتہے کہ وہ ایسے اور گلدستے خریدنا چاہتے ہیں ایک دفعہ ان کو 28 آڈر ایک ساتھ مل گئے اس وقت ان لوگوں کے پاس ایسے گل دستے بنانے کے مشین بھی موجود نہں تھی اور یہ لوگ ان گل دستوں کو پوری پوری رات بیٹھ کر اپنی ہاتھوں سے بناتے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے طارق اور ان کی فیملی کا یہ edible کا کاروبار بڑھتا چلا گیا انہوں نے اپنے فرنڈچائیز بھی مختلف لوگوں کو بھیجنا شروع کر دی اور آہستہ آہستہ نہ صرف امریکہ میں بلکہ ان کی کمپنی دنیا کی مختلف ملکوں میں پھیل گئی آج صرف امریکہ میں طارق اور ان کی فیملی کی 1200 سے زائد سٹورز ہیں ان کی کمپنی کی سالانہ شئیرز 600 میلن ڈالرز یعنی 80 ارب سے زیادہ ہیں آج طارق نہ صرف پھلوں کا گلدستہ بناتی ہیں بلکہ چاکیلڈ فوڈز بھی بھیجتی ہیں طارق کے مطابق ان کی والدہ جو اس کمپنی کے شروع ہوتے ہی وفات پا گئی تھی ان کو ایک وصیت کر کٓر گئی تھی اور وہ یہ تھی کہ کبھی مت بھولنا کہ تم کہاں سے آئے ہو اورتم پہلے کیا تھے دوستوں طارق اور انکے کمپنی آج امریکہ میں مشہور ہے ۔ان کی کہانی ہم سب کو ہی سکھاتی ہیں کہ وسائل نہ ہونے کا رونا رو کےہم کبھی بھی آگئے نہیں بڑھ سکتے بلکہ حالت کا مقابلہ کر کے زندگی میں کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں
No comments:
Post a Comment