بدترین غلامی کی جانب سفر
کسی کو اندازہ ہے کہ ہم جیسے پسماندہ ملکوں میں بڑے بڑے موٹر ویز شاندار ائیر پورٹ شہری زندگی کے چمک دھمک والے منصوبے عالمی فاسٹ فوڈ ز کی دکانیں ہر طرح کے فیشن برنڈ شاپنگ مال عالمی معیار کے تھیٹر اور سینما گھر وغیرہ کیوں کھولے جاتے ہیں غربت کی ماری ان اقوام کا ایسا جزیرہ نما ء روشن چہرہ کسی مقصد کے لئے تخلیق کیا جاتا ہے یہ تمام پسماندہ ممالک سرمایہ کاری کےلئے دنیا بھر میں بدنام سمجھی جاتے ہیں ۔ لیکن کوئی سوال نہیں کرتا کہ فاسٹ فوڈز کے رستورانونگ،فیشن کے دُکانوں اور دیگر مصنوعات پر آپ کی سرمایہ کاری خطرے میں کیون نہیں پڑتی اس ملک یعنی پاکستان میں 6 کڑور لوگ بس کا نمبر تک نہ پڑھ سکتے ہو وہاں شاندار ائیر کنڈیشن بس چلا دی جائے جہاں روزانہ لاکھوں لوگ صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے جان لیوہ بیماری کا شکار ہو جائے وہاں ان کے کچے مکانوں اور تخفن زدہ محلوں سے چمکتی ہوئی موٹروے گزرے ایک چمکدار سڑک جس کے دونوں جانب کڑوروں مخلوفاہ رہتے ہو ان کی بستیاں ایک ہزار سال پرانے کے یادگار معلوم ہو اور موٹر وئے بڑی بڑی گاڑیوں میں بیٹھے وہاں پر موجود لوگ زندگی کو ایسے دیکھے جیسے افریقہ کی سفاری پارک میں گاڑیاں گزارتے ہوئے قدرتی ماحول میں اُ جلتے کودتے جانوروں کو دیکھتے ہیں میرے جسے غریب و افلاس کا شکار لیکن زمینی وسائل سے مال لا مال ملک ایک عالمی تماشہ گاہ ہے۔ یہ عالمی تماشہ کیوں ہے ایسا کیوں کیا جاتا ہے جہاں معاشی و صنعتی ترقی کے لئے کوئی امداد مہیہ نہیں کیا جاتی جہاں تعلیم صحت ، روزگار کے لئے کوئی قرضہ نہیں دیتا یہ کیوں ہے ایسا ۔
آج ہم اسی بارے میں بات کریں گے ۔
ہم غریب و افلاس کا شکارہے زمینی وسائل سے مالامال لیکن ایک عالمی تماشہ گاہ ہے یہاں کے رہنے والے کڑوروں لوگوں کے تعلیم صحت ، رہائش اور روزگار کے لئے کوئی قرضہ نہیں دیتا جہاں معاشی اور صنعتی ترقی کے لئے کوئی امداد مہیہ نہیں کرتا بلکہ صرف اور صرف بڑے بڑے انفرا سٹیکچر بنانے کے لئے دنیا بھر کے ممالک او ر عالمی مالیاتی ادارے دولت کی بوریاں اور بڑے بڑے سفارشات لے کر ان ملکوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ یہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟
ان ممالک کے سیاسی رہنماء ، دانشور اور صحافی اگر صرف دو کتابوں کا مطالعہ کر لے تو انہیں ہر ایسے نشانہ دار چیزوں سے نفرت ہونے لگے ۔ انہیں وہ مستقبل نظر آئے جو ہر اس غریب ملک کا مقدر بنا جنہوں نے ان منصوبوں کے لئے اپنے قوموں کو قرض کے دلدل میں اُتارا ان منصوبوں کی تعریف و تصنیف کے شہرت کے محل کھڑے کئے لیکن ان عوام کو صحت تعلیم ، رہائش ،صاف پانی، امن و امان اور روزگار فراہم نہ کر سکے ان حکمرانوں کےتختیاں ان روپوش، موٹرویز ، تاریخی مقامات ، ثقافتی مراکز،لٹکتی رہے اور عوام کی نسلین غربت و افلاس کے باوجود ایاشئیوں کے لئے لیاگیا قرض ادا کرتی رہے یہ دونوں ایک ایسی معشیت دان نے لکھی ہے جو دنیا بھر کی ممالک میں ایسے منصوبے لے کر جاتا رہا اور ان منصوبوں کی وجہ سے تمام ملک بدترین انجام تک پہنچے یہ شخص جان پرکنز ہے اور اس کی پہلی کتاب 2006 میں آئی اور دوسرے کتاب 2009 میں آئی پہلی کتاب the confessions of economic hit men ہے جب کہ دوسری کتاب the secret history of American empire 2009 میں آئی خوش قسمتی کی بات ہے کہ دونوں کتابیں کا اردو ترجمہ ایک معاشی غارت گری اور امریکی مکاریوں کے نام پر ہو چکا ہے یہ دونوں کتابین کسی ناول کی طرح دلچپ حیرت ناک اور سنسنہ خیز سے بھرپور ہے اس میں پانامہ کولمبیاء ونسریلاانڈونیشیاء ، مصر اور افریقہ کے ممالک تک میں اپنی سرگرمیوں کے داستانین بیان کی ہے اس کی کتابین پڑھنے کے بعد آپ کو رہنماؤ کی بے ضمیری ، وطن فروشی اور بددیانتی پر رونا آنے لگتا ہے آپ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کھیتوں میں کام کرنے والا سڑک پر بجر ی کوڈنے والا مشینوں پر زندگی ختم کرنے والا ، نائیاور موچی ، ترکھان وغیرہ ان شاندار انفراسٹیچر اور ترقی کی علامت موٹرویز اور شہری صہولیات پر قرضے اُتارتے اُتارے بیماری اور افلاس میں شب و خون کر کے زندگی کی بازی ہار جاتا ہے، برکنز اپنے کتاب میں ان سارے سازش کے تین وجہ بتاتا ہے وہ بتاتا ہے کہ دنیا بھر کے وہ تمام امیر ماملک جن میں کی نظر غریب ممالک کی مادنی وسائل پر ہوتی ہے وہ میرے جیسے اکانمک ہٹ مین پاتے ہیں، ان فراد کی تنخواہ اور اخراجات وہ بڑی بڑی کنسٹریکشن کمپنیاں اور تیل اور مادی وسائل پر قبضہ کی خواہشمند کاپریشن پر اُٹھاتی ہے ان معاشی ضرب کاروں کو جس ملک میں بیجا جاتا ہے اس کے حوالے سے بڑے بڑے سڑکوں ائیر پورٹ اور دیگر خوش نماء منصوبوں سے بھرے ائیر پورٹز تیار کرتے ہیں۔ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کس طرح غریب ملک کو زیا دہ سے زیادہ قرضے کے دلدل میں ڈیبویا جا سکتا ہے جہاں ریاستوں کی ضرورتوں کی ہے وہاں مستقبل کی ضرورتوں کا بہانہ بنا کر 4 ریہ سڑکوں پر روز دیا جاتا ہے ۔ یہاں وہ اپنے ایک ہم پیشہ کی مثال دیتا ہے کہ جس نے انڈونیشاء کے بارے میں ایک حققت مندانہ سکیم بنائی اسے نوکری سے نکالا گیا اس کے بعد پرکنز کو ذمہ داری صومپی گئی اس نے 25 گنہ لاگت کے منصوبے بنا کر پیش کئے جنہیں عالمی بندک اور قرضہ دینے والے مامالک نے خوش دلی سے قبول کیا جب ایسے منصوبے تیار ہو جاتے ہیں پھر یہ ہٹ من اس ملک کی سیاسی قیادت ،بیروکریسی، اور دیگر کار پردازوں کو انتہائی خوش نماء طریقے سے بریفنگ دیتا ہے اس دوران ا س کی تلاش ایسے بددیانت لالچی بے وقوف شہرت کے بھوکے اہل اقتدار پر ہوتی ہے جو ان منصوبوں سے سستی شہرت بھی کمائے اور مال بھی بھٹورے یہاں ان لوگوں کا جٹھا بن جاتا ہے ہر کوئی میٹنگ میں ان کی وفاء ، ان کی تعریف میں رب السان ہوتا ہے یوں جب یہ منصوبے منظور ہو جاتے ہے تو اس امیر ملک یا مالیاتی ادارے سے قرضے کی رقم کا بندوبست بس ایک کاروائی سے ہوتا ہے ۔ اور یہ کاروائی کیا ہوتی ہے صرف اور صرف چند باتیں وہ بھی ایسی کہ جس کے ذریعے سے آپ یہ تخریب کر لیتے ہیں ،اس بات کا یقین بنا لیتے ہے کہ کس طرح سے اس کو قرضہ دیا جائے گا اور اسے کس طرح سے نچوڑا جائے گا میٹنگوں کے بعد تعارفین ، تعارفوں کے بعد قرضہ منظور ہو جاتا ہے اور بڑی آسانی سے اس امیر ملک یا مالیاتی ادارے سے قرضے کا رقم بندوبست کر دیا جاتا ہے حیرت ناک بات یہ ہے کہ یہ رقم اس امیر ملک سے غریب ملک منتقل نہیں ہوتی امریکہ ہو یا فرانس ، ترکی ہو یا چین اپنے کنسٹریکشن کمپینوں کو اپنے ہی ملک میں ادا کر دیتے ہیں۔ رقم اس ملک میں رہتی ہے اور قرضہ غریب ملک کے عوام کے گردن پر، اس کے بعد ان ہیٹ مینون کے بتائے جالی اعداد و شمار کی ریورٹس پر مبنی پروپیگنڈا شروع ہوتا ہے یہ موٹر وئے بنا تو تجارت اتنے گنا بڑے گئی۔ بندرگاہ بنے تو ملک پورے مشرق قبصتہ کی تجارپ پر چھا جائے گا یہ ٹرین ، یہ بس چل پڑی تو عا م آدمی کے دن بدل جائیں گے ان بسوں میں اس موٹرویز پر چلنے والی پبلک ٹرانسپروٹ پر مفلس نادار ، بے روزگار، انٹپر لوگ سفر کرتے ہیں، جنہیں نہ تعلیم ملتی ہے نہ دوا، نہ گھر میسر ہوتا ہے اور نہ نوکری لیکن یہی لوگ ہے جنہیں ان موٹرویز م بندر گاہوں اور ائیر پورٹز کا قرضدار بھی رہتے ہیں۔جب کسی ملک پر ڈھیر سارا قرض چڑھ جاتا ہے کو پرکچ کے مطابق وہاں عقاء یعنی ہاکس و بیجا جاتا ہے یہ لوگ کمپنی اور کارپورشن ہوتی ہے جن کی نظر اس ملک کی مادنی وسائل تیل ، لوہا، تنبہ ، سونا ، چاندی اور دیگر دھاتوں پر ہوتی ہے ، کچھ وہاں کی زرعی زمینوں پر کاپریٹ فارمنگ چاہتی ہے یہ عقاب اس قرضے میں جھکڑے کام کے وسائل پر یوںٹوٹتے ہیں بھوکے بیڑ کے افریقہ اس کی بدتریں مثال ہے برکنز کہتا ہے کہ میں حیران ہوتا تھا انا افریقی ممالک میں جہاں کڑوروں لوگ بھوک سے مر رہے تھے وہاں عالمی فوڈ اور رسٹورانٹ بڑھتی چلی جا رہے تھے ان کو چلانے کے لئے ایک میڈل کلاس بنائے جاتی ہے جس کو کاپریٹ کلچر مناسب تنخواہ دیتا ہے ایج اوز کو فنڈز ملتے ہیں جن کے لئے مہنگی تعلیمی سہولیات ، اور مہنگے ہسپتال یہ لوگ ہے جو انفراسٹیکچر کی ترقی کو اخباروں اور ٹی ویز پر اصل ترقی بتاتے ہیں، ایسے غریب ملکوں میں اگر کوئی نقابوں کی بات نہ مانے تو لیڈروںکو موت کے نید سولائے جاتے ہیں۔ چلی کا آنندے ، کانگو کا لوبمبا اور پانامہ کا صدر اس کی مثالیں اس کے ساتھ ان ملکوں کو حقوق کی جنگ کے نام پر و غارتون میں لگائے جاتے ہیں۔ صرف سوڈان ، ایوانڈا ، اور داراہ فور کی لڑائی میں 40 لاکھ لوگ مارے گئے یوں جہاں دہشت گردوں کا راج ہو وہاں سے محاہدہ کرے کے مادنیات حاصل کی جاتی ہے اور جہاں امن ہو وہاں حکومت کو بلیک میل کر کے انگلولہ اس کی بدتریں مثال ہے اگر لیڈوں کو قتل کرنے سے بھی کام نہ چلے تو اس ملک میں فوجیں اُتار دی جاتی ہے یہ ہے وہ گن چکر اس لئے جب کوئی موٹروے بنتا ہے ماس ٹرانزیکس سکیم آتی ہے ائیر پورٹس کی توسیع ہوتی ہے تو میں کاپ اُٹھتا ہوں
18 کڑور بھوکے نگوں کے اس انجام پر یہ پہلے ان عیاشئیوںپر قرضے ادا کریں گے اور بدترین غلامی اور وہشی طریقے سے زندگی گزاریں گے آپ حیران ہوں گے یہ باتین تو بلکل عام سی باتیں ہے لیکن آپ یہ دیکھیں کہ اس ملک کو کس طرح سے نوچا گیا جب یہ حکومت ثابقہ حکومت آئی تھی تو اس وقت موٹر ویز پر ٹیکس کی مد میں رقم وصول کی جاتی تھی وہ 180 روپہ وصول کی جاتی تھی اور ب یہ 600 سے زائد اس موٹر ویز پر ٹیکس کی مدمیں وصول کی جاتی ہے یعنی 430 روپیہ آپ حساب لگائیں کہ کس طرح سے اس ملک کو نوچا جا رہا ہے ۔ لاہور میں آج سے پہلے کی 5 یا 7 بڑے ہسپتٹل تھے اور آج یہ 5 سال حکومت کرنے کے بعد 5 یا 7 ہسپتال ہی ہے ۔ یہ تمام تر دولت کہاں گئی کا سڑکیں بنانے سے صحت بہتر ہو جائے گی ، کیا سڑکیں بنانے سے تعلیمی سہولیات بہتر ہو جائے گی؟
بلکل بھی نہیں
تعلیمی سہولیات کو بہتر کیا جائے گا، صحت کی سہولیات کو بہتر کیا جائے گا تو ہی جا کر ملک و معاشی ترقی کی جانب گامزن کیا جا سکتا ہے بصور ت دیگر ہمارا حل بھی پانامہ کولمبیاء انڈونیشاء ، اور افریقہ جیسے ممالک سے ہونے لگ جائے گا ۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور پاکستان کو اپنی حفاظت میں رکھیں آمیں
پورٹز ۔


No comments:
Post a Comment