Efficient tag

#Sunopak

ماحولیاتی دہشت گردی | تحریر آصف علی | ریسرچ سکالر





ماحولیاتی دہشت گردی  : تحریر آصف علی ( ریسرچ سکالر)

اسلامی جمہوریہ پاکستان  کا سب سے بڑا شہر کراچی صوبہ سند ھ کا مرکز  ہے ، شہر قائد پاکستان کا سب سے زیاہ آبادی والا شہر ہونے کا اعزاز بھی رکھتا ہے ، 2017 کی مردم شماری کے مطابق شہر کی آبادی  14.9 میلن ریکاڈ کی گئی  کراچی کا شمار دنیا کے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی والے شہرو ں میں کیا جاتا ہے ۔ شہر قائد پاکستان کا اعلیٰ  صنعتی مرکز ہے  پاکستان کے ٹیکس کا ایک تہائی حصہ کراچی سے جمع ہوتا ہے ، ساتھ ساتھ پاکستان کی صنعتی پیدا وار کا 30 فیصد کراچی سے ہے۔ سمندری ہواؤں کی بدولت   شہر قائد دیگر شہروں سے منفرد موسم اور درجہ  حرارت کا حامل ہے۔ چند ایک سالوں سے جہاں یہ شہر  دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا  اور ہزاروں قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔ وہی پر غریبوں کا شہر ماحولیاتی دہشت گردی کا شکار رہا اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے پچلے چند سالوں میں  ہیٹ اسٹوک کی وجہ سے کئی لوگ زندگی  کے بازی ہار گئے ، کراچی کے موسم میں یہ تغیر حیران کن تھا ۔ گرمی اپنی سابقہ رکاڈ سے تجاوز کر چکی ہےاور باران رحمت کا نزول نہ ہونے کےبرابر ہے۔اس ماحؤلیاتی تبدیلی کی بہت سے وجوہات ہے ۔ ان میں سے ایک اہم وجہ جنگلات کی کمی ہے ۔کسی بھی ملک کی ماحولیاتی بہتری کے لیے اس ملک کا 25فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے ایک اندازے کے مطابق برازیل 48فیصد انڈونیشا 51فیصد، بھارت 23فیصد بھوٹان کا 72 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان کا صرف 4 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے کراچی میں شجر کاری مہم کیلیے 2008 میں مصطفٰی کمال کے دور میں 8ارب روپے کی لاگت سے 14 مختلف اقسام کے درخت خریدنے کی منظوری دی گئی لیکن بد قسمتی سے صرف ایک قسم کا پودا جس کی تعداد 22لاکھ تھی جو ایتھوپیا سے منگوایا گیا ۔کونو کارپس کا درخت کراچی کی آب و ہواسے بلکل الگ تھلگ تھا ۔ کونو کارپس  پولن الرجی کا سبب بنتا ہے۔ پرندے اس پر گھونسلے نہیں بناتے ،یہ پودا بادلوں اور بارش کے  نظام کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔  اسکی اہم خصوصیات  یہ بھی ہے  کہ یہ بغیر بیج شاخ شے بھی بڑھتا ہے اور ہوا کی نمی کا استعمال کرتا ہے۔ کویت انسٹیٹوت آف سائینس کے ریسرچ ڈائیریکٹر ہنیٰ نے کونو کارپس کی نوعیت کی وضاحت کچھ یوں  کی ہے کہ تاریخی طور پر کونو کارپس صومالیہ کے مقامی درخت کے طور پر پایہ جاتا تھا۔ 1980 ء  تک یہ درخت کینیا ، سعودیہ عرب، سوڈان، شام، بھارت اور پاکستان میں نظر آنے لگا اب یہ درخت نائیجیرہ اور بنگال سمیت افریقہ کے 9 سے زائد ممالک برازیل اور کیوبا سمیت  جنوبی امریکہ کے  27 ممالک  اوار ان کے علاوہ امریکہ اور میکسیکو میں بھی پایا جاتا ہے۔جامعہ کراچی کی ریسرچر ڈاکٹر پروین اور  ان کے ساتھیوں نے  اہم ریسرچ میں فضا ء میں موجود  پولن کا مشاہدہ کیا  اس تجربے سے پتہ چلا کراچی کی فضاء میں 32 پودوں کے پولن پائے جاتے ہیں۔ جس میں سے 12 پودوں کے پولن انسانی صحت کےلئے نقصاندہ ہے اور الرجی پیدا کرتی ہے ۔ ان میں جنگلی جولائی، ایٹریپلیکس ، لانا ، کونو کارپس، لان گاس ، برورای، ولایت کیکر، اسپغول ، باھو، سفیدہ اور دیسی کیکر شامل ہے ۔ ریسرچر کا کہنا ہے کہ لان گاس کےبعد کونو کارپس استھما کی سب سے بڑی وجہ قرار دی ہے ۔
جرنل آف فارما سویٹکل بیالوجیکل اینڈ کیمیکل سینٹر میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کونو کارپس آرائشی  پھولوں کے اُگاو میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے اور اُگاو کی بہتری کو 40فیصد تک کم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسطرح امریکن جرنل آف پلانٹ سائینس میں شائع ہونے والے ایک تحقیق کے مطابق یہ پودا مکی کے اُگاو میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ انسٹیوٹ فارما سائینٹیفک ریسرچ کویت  کے ڈاکٹر ہانیٰ  نے بتایا کہ  یہ پودازمین کے نیجے کے لوہے کے بنے پانی کے پائپوں ،سمنٹ ،بجری سے بنے ہوئے ڈھانچوں حتا کہ چٹانوں کو توڑ کر اندر داخل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔شہر کراچی میں 22لاکھ کونو کارپس کے پودے ہیں اگر کوئی بیماری جنم لیتی ہے   تو  کونو کارپس کے سارے پودے اس سےمتاثر ہوں گے  جو کہایک خطرناک قسم کےماحولیاتی نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ کونو کارپس کے نقصانات کی وجہ سے 2010 میں قطر نے اس پودے پر پابندی عائد کر دی 2014 میں کویت نے زیر زمین پانی والے علاقوں میں  اس کی شجر کاری پر پابندی عائد کر دی ایران نے شہری آبادی میں لگانے پر پابندی کر دی  2016 میں سندھ ہائی کوٹ نے کونو کارپس درخت کو کاٹنے کا فوری طور پر حکم جاری  کیا اور کمشنر کراچی نے  کراچی شہر کونو کارپس پر پابندی لگادی لیکن کراچی کا کوئی وارث  نہیں  اس لئے اس حکم پر عمل نہ ہو سکا ۔امید ہے قبل از وقت کوئی اہم فیصلہ کر کے کراچی کے مستقبل کو موسمی خطرات سے بچایا  جائے۔

No comments:

Post a Comment

Sunopak

PropellerAds