آج سے تقریبا ً 38 سال قبال دسمبر 1978 میں جب سویتھ یونین کے افراد افغانستان میں داخل ہوئی تو جس خطے پر دنیا پھر کی نظرئے جم گئی وہ پاکستان تھا یہ نظریں آج تک ہٹی نہیں لیاقت علی خان کی وازت عظمیٰ کے زمانے سے امریکی محبت میں گرفتار پاکستانی سیاسی اشرقافیہ جس میں سیاست دان بیورو کیڑیٹ اور افواج شامل تھی ایک دم چونک اُٹھے دوسرے جنگ عظیم کے بعد جو سرد جنگ شروع ہوئی یہ اس کا سب سے بڑا واقعہ تھا پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ اگلہ نشانہ ہم ہے یہ یقین در اصل تاج برطانیہ کے زمانے سے دلوں میں بٹھایا ہوا خوف سے پیدا ہوا تھا کہ زار کے زمانے روس گرم پانیوں تک پہنچنے کوشش میں ہے عسکری تجزیہ کاروں کی اکثریت اس کلیوں کو بیان کرتی ہے کہ برطانیہ نے افغانستان میں بدترین شکست کے بعد یہ طح کیا افغانستان کو روس اور برطانوی ہندوستان ایک بفر زون کے طور پر چھوڑ کر اپنے مورچے ڈیوڈ لائن پر مضبوط کر لیئے جائے آپ کو برطانوی ہندوستان کے کسی بھی سرحد پر اتنے مضبوط پختہ مورچے قلعے اور ذرائے آمدرفت نہیں ملیں گے جیسے افغانستان کے سرحد پر قائم کئے گئے برطانوی حکمران اور جنریل اکثر یہ فقرہ وہراتے تھے کہ سویت روس گرِے ایم او عبور کر گیا تو جنگ چھڑ جائے گی دوسرے جانب اسی برطانوی ہندوستان میں روس کی طرز پر کمیونسٹ انقلاب لانے والوں کی ایک وسیع کیپ موجود تھی جو امریکہ دشمن خیلات عوام میں پھیلا نے میں انتہائی موثر تھی کمونسٹ پارٹی کی مزدور اور کسان تنظیمیں بہت منظم تھی ادب کے محاز پر تو کسی اور کے اجارہ داری نہیں تھی انجم ترقی پسند مصنفین میں کون تھا جو شامل نہیں تھا ساہر لدھانوی فیض احمد فیض احمد ندیم قاسمی غرض ہر بڑا نام روس کی مدحت اور کمیونسٹ انقلاب کے لئے نظمیں غزلین افسانے اور ناول تحریر کر رہا تھا یہی وجہ ہے جب سویت روس نے اتحآدیوں کے ساتھ مل کر ہٹلر سے لڑائی کا آغاز کیا تو یہ سب کے سب طانوی افواج کے ساتھ ہو گئے اور فیض احمد فیض جیسا شاعر بھی فوج کے شعبہ تعلوقات عامہ میں کرنل کے عہدے پر براجمان ہو گیا ۔پاکستان کو ی کمیونسٹ تحریک ورثے میں ملی یہ تحریک ایک مضبوط سیاسی چہرہ تو نہ بنا سکی لیکن اس کے مزدور اور کسان انجومنیں خاصی مضبوط تھی 1970 کا ایلکشن اسی کش مکشن میں لڑا گیا مغربی پاکستان میں زلفیقار علی بٹواور مشرقی پاکستان میں بشانی نےٍ ان امریکہ مخآلف اور کمیونزم حماد کا بھر پور فائدہ اُٹھایا دوسرئ جانب جماعت اسلامی اور مولانہ مسعودی کا لیٹیچر کمیونزم کے خلاف ایک مضبوط دیوار تھا اسی لیے اس دور کا پرس جو کمیونسٹ خیلات رکھنے والوں کے زیر اثر تھا وہ مولانہ مودودی اور جماعت اسلامی کو امریکی پٹھو اور انقلاب کے راستے میں سب سے بڑی رکاورٹ لکھاتا رہا یہ دائیں بازور اور بھائیں کے درمیان کش مکش کا دور تھا اسی لئے جب سویتھ یونین افواج روس داخل ہوئی تو پاکستان میں موجود بائیں بازو کا طبقہ مغربی سرحد کی طرف امید لگا کر بیٹھ گیا کہ کب روس کی افراج افغانستان سے پاکستان داخل ہوتی ہیں اور یہاں مزدور اور کسان کی بادشاہد قائم کرنے میں مدد کرتی ہے اس دور میں ایک کتاب بہت مقبول ہوئی جسے نیٹو افواج کی کمانڈر سر والٹرواکر نیٹ نے تحریر کیا تھا the next Dominoاس کتاب میں اس نے دلائیل اور شواہد سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ روس گرم پانیوں تک پہنچنے کی صدیوں پورانی خواہش رکھتا ہے کیونکہ اس کے ساحل اس قابل نہیں کہ ان میں سرد موسم کی وجہ سے جہاز رانی کی جا سکے اس لئے وہ بزیعہ افغانستان گوادر تک پہنچنا چاہتا ہے گوادر کا نام اس وقت عالمی سکرین پر جگمگانے لگادنیا بھر کی دائیں بازوکی افواج اور حکومتیں امریکہ کی قیادت میں متحد ہو گئی اور وہ افغان جہاد شروع ہوا جس کے نتیجے میں سویت یونین بہ حیثت ایک عالمی طاقت دنیا کے نقشے سے محدوم ہو گیا اور پوری دنیا یہ سمجھنے لگی اب مدتوں تک دنیا کے اقتدار پر امریکہ کا کوئی مخالف اور حریف نہیں ہو گا آج اور اس وقت دنیا کو کس قدر حیرت ہیں کہ وہ خواب جو روس اپنی افواج اور علاقے فتح نہ کر سکا اس کی شرمندہ تعبیر ہونے کے دن آگئے ہیں گوادر اب روس کے کئے ایک خواب نہیں بلکہ حقیقت بن چکا ہے وہ سویت یوننین جس کے سائے میں بھارت کے جواہر لال نہرواور یوگو سلاوی مارشل کنیٹو کی لان الائیٹ مومنٹ مستحکم تھی آج اسی بھارت کا نرندی مودی امریکہ کا منظور نظر ہے امریکہ افغانستان میں موجود ہے لیکن اس کی موجودگی اسکی اپنےلئے وبال جان ہے وہ نکلنا چاہتا ہے لیکن افغانساتن کو اپنے حواری بھارت کے زیر اثر کر کے وہاں سے نکلنا چاہتا ہے امام خمنی کا مرگ بر امریکہ والا ایران اب امریکہ کا اس گیم پلان کا حصہ ہیں لیکن پاکستان کے بغیر افغانستان میں مستقل پلان کرنا ناممکن ہے اور وہ امرکہ سے روز بہ روز دور سر قطح جا رہا ہے خطے کا سب سے اہم ملک چین بھی روس کی طرح مشرق وسطح اور افریقہ تک نزیکی راستے کی تلاش میں گوادر آپہنچا ہیں سی پیک ایک ایسا لہراتا ہوا ناگ ہیں جو بھارت اور افغانسان کے راستے میں بیٹھا ہے اور کسی طاقت ور پنڈک کے بھی قابو میں نہیں آرہا سی پیک ہی وہ شہراہ ہیں جو روس کا خواب پورا کر رہی ہے شاید لوگووں کے لئے یہ خبر ہو پاکستان میں اس وقت جتنی سر گرمایہ کاری چین کے سرمایہ کار کر رہے ہیں اس سے زیادہ تو نہیں برابر ورس کے سرمایہ کار بھی اپنی سرمایہ کاری پاکستان میں لگا رہے ہیےروس کے سرمایہ سے چلنے والی عالمی کمپنی زمپل کام پاکستان کی سب سے بڑی موبائل کمپنی موبلنگ خرید چکی ہے اور اس نے پہلا کام یہ کیا کہ وارد کو بھی خرید کر اس میں زم کر لیا کمپنز میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے اسے دنیا کی چند بڑے نیٹ ورکون میں برابر لانا چاہتی ہیں روس اس وقت دنیا مین تیل کے ذخائر رکھنے والا ملک ہے گزشتہ سال اس کی تیل کمپنی گیز پروم نے پاکستان کے ساتھ معاہدہ کیااور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے یہ تیل اور گیس کی تلاش میں آٹھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری شروع ہو چکی ہے اس وقت بینک الفلاح کے ساتھ روسی کمپنی کے مزاکرات آخری مراحل میں ہے پاکستان کا امریکی اسلحہ پر انحصار کم سے کم ہوتا جا رہا ہے ایف 16 کی جگہ چینی جے ایف ٹھنڈر نے لے لی ہے جو پاکستان میں بن رہے ہیے اور چین کی وجہ سے پاکستان اس میں ریجسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ میں محارت بھی رکھتا ہے دوسری جانب گزشتہ ماہ روس کے ایم 135 ہیلی کاپٹر کی کیپ پاکستان پہچ چکی ہے اس وقت امریکہ کا صرف اور صرف ایک ہی خواب ہے کی افغانستان کی جنگ پاکستان منتقل کی جائے تا کہ پاکستان ایک مسلسل بدامنی کا شکار رہے جب کہ روس اور چین کا کا مفات پاکستان میں مستقل امن کا ہے 75 سال کے بعد دشمن دوست اور دوست دشمن میں بدل رہے ہیں عوام کو اس ے کوئی فرق نہیں پڑے گا وہ تو امن اور خوشحالی چاہتے ہیں لیکن سیاسی پارٹیز اشرافیہ کے نیدین حرام ہے جن جائیدادیں یورپ اور امریکہ میں ہے بچے وہاں رہتے ہیں اور پڑھتے ہیں انہیں سرپرستی بھی انہی کی حاصل ہے دیکھے جیت کس کی ہوتی ہے امن و خوشحآلی کی یا بدامنی و بدحالی کی


No comments:
Post a Comment