Efficient tag

#Sunopak

ملی مسلم لیگ کو الیکشن سے پہلے دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا گیا


پاکستان میں الیکشن سے قبل ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے، امریکہ نے حافظ سعید کی جماعت الدعوہ کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس کے سات سینئر مرکزی رہنماؤں سیف اللہ خان (صدر)، مزمل اقبال ہاشمی (نائب صدر)، محد حارث ڈار (جائٹ سیکرٹیری)، تابش قیوم (سیکرٹری اعلاعات)، فیاض احمد (جنرل سیکرٹری)، فیصل ندیم (براڈ کاسٹگ اینڈ پبلیکیشن سکرٹری)، اور محمد احسان (فنانس سیکرٹری) کو بھی غیر ملکی دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہے، اس کے علاوہ امریکہ نے تحریک آزادی جموں کشمیر (TAJK) کو بھی دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔ امریکہ کے مطابق تحریک آزادی جموں کشمیر کو لشکر طیبہ کا حصہ سمجھا جاتا ہے جو کہ پاکستان میں آزادانہ کام کرتی ہے۔ یہ بات اس وقت سامنے آئی جب پاکستان الیکشن کمیشن نے ملی مسلم لیگ سے وزارت داخلہ کی جانب سے جاری سرٹیفکیٹ پیش کرنے کا کہا جس کے مطابق ملی مسلم لیگ کو باقاعدہ سیاسی پارٹی کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، اس سے قبل الیکشن کمیشن نے وزارت داخلہ کے اعتراض کے بعد بطور سیاسی پارٹی ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
یو ایس سٹیٹ ڈیپارلیمنٹ کے مطابق اس پابندی کا مقصد لشکر طیبہ کو دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی اور وسائل کی فراہم سے روکنا ہے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے انسداد دہشت گردی کے کوارڈینیٹر نیتھن اے سیلز کے مطابق ملی مسلم لیگ اور تحریک آزادی جموں کشمیر پر پابندی کا مقصد عوام کے سامنے ان کا اصل چہرہ بے نقاب کرنا ہے۔ سیلز کا مزید کہنا تھا کہ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ لشکر طیبہ جس نام سے بھی کام کرے، امریکہ کی خواہش ہے لشکرطیبہ کو اس وقت تک سیاسی سرگرمیوں سے روکا جائے جب تک وہ اپنی پر تشدد کاروائیاں بالکل ترک نہ کر دے۔ دہشت گرد قرار دیئے جانے کے ساتھ ساتھ لشکر طیبہ کی تمام املاک اور اکائونٹس کو بھی منجمد کر دیا گیا ہے اور امریکیوں کو لشکرطیبہ سے کسی قسم کی کاروباری شراکت سے بھی روک دیا گیا ہے، لشکر طیبہ پاکستان میں آزادانہ عوامی احتجاجات جمع کر رہی ہے، چندہ اکٹھا کر رہی ہے اور مجاہدین کو جہاد کی ٹرئینگ دے رہی ہے، لشکر طیبہ کو 20 دسمبر 2001 کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم (FTO) اور سپیشل عالمی دہشت گرد تنظیم (SDGT ) قرار دیا گیا تھا اور حافظ سعید کو بھی (SDGT) قرار دیا گیا تھا۔
سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا کہنا تھا کہ پابندیوں سے بچنے کیلئے لشکر طیبہ مسلسل اپنا نام تبدیل کر کے کام کر رہی تھی، جنوری 2017ء میں تحریک آزادی جموں کشمیر اور اگست 2017ء میں ملی مسلم لیگ سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم سے لشکر طیبہ چندہ جمع کرنے اور دہشت گردانہ منصوبوں کی تیاری میں مصروف عمل ہے، ملی مسلم لیگ کے رہنما اپنے اشتہارات اور انتخابی مہم کے دوران آزادانہ حافظ سعید سے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔
گزشتہ جمعہ کو اس عمل کے ذریعہ امریکہ نے عوام اور عالمی رائے عامہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ تحریک آزادی جموں کشمیر اور ملی مسلم لیگ، لشکریہ طیبہ کا ہی ایک تسلسل ہے، اس طرح ان دہشت گرد تنظیموں اور افراد کو بے نقاب کیا گیا ہے اور ان کی امریکہ کے مالی نظام تک پہنچ کو روک دیا گیا، اس کا مقصد امریکہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کرنا بھی ہے، محکمہ مال کے ماتحت سیکرٹری سیگل مینڈ یلکر کا مزید کہنا تھا کہ ملی مسلم لیگ اور اس کے 7 مرکزی رہنماؤں پر پابندی کا مقصد پاکستان کے الیکشن کمیشن کو یہ باور کرانا ہے کہ ملی مسلم لیگ کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے بلکہ لشکر طیبہ کی ہی ایک شاخ ہے، انہوں نے کہا کہ وہ اس طرح ان ۔تنظیموں کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے جو نام بدل کر کام کرتی ہیں اور انہوں نے ان لوگوں کو اور تنطیموں کو بھی خبردار کیا جو لشکر طیبہ یا ملی مسلم لیگ کو چندہ دیتے ہیں کہ وہ بھی پابندیوں کے لیے تیار رہیں۔
ملی مسلم لیگ کے صدر خالد، لشکرطیبہ کے پشاور مرکز کے صدر بھی رہ چکے ہیں اور مرکزی صوبہ پنجاب جماعت الدعوہ کی کوارڈینیشن کمیٹی میں بھی کام کر چکے ہیں۔ جماعت الدعوہ کو اپریل 2016ء میں لشکر طیبہ کا اتحادی ہونے کی وجہ سے کالعدم جماعت قرار دے دیا گیا تھا اور دسمبر 2016 میں لشکر طیبہ کو اقوام متحدہ کی طرف سے پابندی عائد کی جانے والی تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ جماعت الدعوہ کو لشکر طیبہ کا دوسرا چہرہ قرار دیا جاتا ہے جس پر ممبئی حملوں کا الزام ہے جس میں 166 افراد مارے گئے تھے، جس میں 6 امریکی بھی شامل تھے، جماعت الدعوہ کو امریکہ کی طر ف سے جون 2014ء میں غیر ملکی دہشت گرد تنظیم (FTO) قرار دیا گیا تھا۔
بشکریہ : فسٹ پوسٹ (First post)
اردو ترجمہ: حسنین اشرف راجپوت (ایڈوکیٹ ہائیکورٹ)


ماحولیاتی دہشت گردی | تحریر آصف علی | ریسرچ سکالر





ماحولیاتی دہشت گردی  : تحریر آصف علی ( ریسرچ سکالر)

اسلامی جمہوریہ پاکستان  کا سب سے بڑا شہر کراچی صوبہ سند ھ کا مرکز  ہے ، شہر قائد پاکستان کا سب سے زیاہ آبادی والا شہر ہونے کا اعزاز بھی رکھتا ہے ، 2017 کی مردم شماری کے مطابق شہر کی آبادی  14.9 میلن ریکاڈ کی گئی  کراچی کا شمار دنیا کے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی والے شہرو ں میں کیا جاتا ہے ۔ شہر قائد پاکستان کا اعلیٰ  صنعتی مرکز ہے  پاکستان کے ٹیکس کا ایک تہائی حصہ کراچی سے جمع ہوتا ہے ، ساتھ ساتھ پاکستان کی صنعتی پیدا وار کا 30 فیصد کراچی سے ہے۔ سمندری ہواؤں کی بدولت   شہر قائد دیگر شہروں سے منفرد موسم اور درجہ  حرارت کا حامل ہے۔ چند ایک سالوں سے جہاں یہ شہر  دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا  اور ہزاروں قیمتی جانوں کا نقصان ہوا۔ وہی پر غریبوں کا شہر ماحولیاتی دہشت گردی کا شکار رہا اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے پچلے چند سالوں میں  ہیٹ اسٹوک کی وجہ سے کئی لوگ زندگی  کے بازی ہار گئے ، کراچی کے موسم میں یہ تغیر حیران کن تھا ۔ گرمی اپنی سابقہ رکاڈ سے تجاوز کر چکی ہےاور باران رحمت کا نزول نہ ہونے کےبرابر ہے۔اس ماحؤلیاتی تبدیلی کی بہت سے وجوہات ہے ۔ ان میں سے ایک اہم وجہ جنگلات کی کمی ہے ۔کسی بھی ملک کی ماحولیاتی بہتری کے لیے اس ملک کا 25فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے ایک اندازے کے مطابق برازیل 48فیصد انڈونیشا 51فیصد، بھارت 23فیصد بھوٹان کا 72 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے لیکن بد قسمتی سے پاکستان کا صرف 4 فیصد حصہ جنگلات پر مشتمل ہے کراچی میں شجر کاری مہم کیلیے 2008 میں مصطفٰی کمال کے دور میں 8ارب روپے کی لاگت سے 14 مختلف اقسام کے درخت خریدنے کی منظوری دی گئی لیکن بد قسمتی سے صرف ایک قسم کا پودا جس کی تعداد 22لاکھ تھی جو ایتھوپیا سے منگوایا گیا ۔کونو کارپس کا درخت کراچی کی آب و ہواسے بلکل الگ تھلگ تھا ۔ کونو کارپس  پولن الرجی کا سبب بنتا ہے۔ پرندے اس پر گھونسلے نہیں بناتے ،یہ پودا بادلوں اور بارش کے  نظام کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔  اسکی اہم خصوصیات  یہ بھی ہے  کہ یہ بغیر بیج شاخ شے بھی بڑھتا ہے اور ہوا کی نمی کا استعمال کرتا ہے۔ کویت انسٹیٹوت آف سائینس کے ریسرچ ڈائیریکٹر ہنیٰ نے کونو کارپس کی نوعیت کی وضاحت کچھ یوں  کی ہے کہ تاریخی طور پر کونو کارپس صومالیہ کے مقامی درخت کے طور پر پایہ جاتا تھا۔ 1980 ء  تک یہ درخت کینیا ، سعودیہ عرب، سوڈان، شام، بھارت اور پاکستان میں نظر آنے لگا اب یہ درخت نائیجیرہ اور بنگال سمیت افریقہ کے 9 سے زائد ممالک برازیل اور کیوبا سمیت  جنوبی امریکہ کے  27 ممالک  اوار ان کے علاوہ امریکہ اور میکسیکو میں بھی پایا جاتا ہے۔جامعہ کراچی کی ریسرچر ڈاکٹر پروین اور  ان کے ساتھیوں نے  اہم ریسرچ میں فضا ء میں موجود  پولن کا مشاہدہ کیا  اس تجربے سے پتہ چلا کراچی کی فضاء میں 32 پودوں کے پولن پائے جاتے ہیں۔ جس میں سے 12 پودوں کے پولن انسانی صحت کےلئے نقصاندہ ہے اور الرجی پیدا کرتی ہے ۔ ان میں جنگلی جولائی، ایٹریپلیکس ، لانا ، کونو کارپس، لان گاس ، برورای، ولایت کیکر، اسپغول ، باھو، سفیدہ اور دیسی کیکر شامل ہے ۔ ریسرچر کا کہنا ہے کہ لان گاس کےبعد کونو کارپس استھما کی سب سے بڑی وجہ قرار دی ہے ۔
جرنل آف فارما سویٹکل بیالوجیکل اینڈ کیمیکل سینٹر میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کونو کارپس آرائشی  پھولوں کے اُگاو میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے اور اُگاو کی بہتری کو 40فیصد تک کم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسطرح امریکن جرنل آف پلانٹ سائینس میں شائع ہونے والے ایک تحقیق کے مطابق یہ پودا مکی کے اُگاو میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ انسٹیوٹ فارما سائینٹیفک ریسرچ کویت  کے ڈاکٹر ہانیٰ  نے بتایا کہ  یہ پودازمین کے نیجے کے لوہے کے بنے پانی کے پائپوں ،سمنٹ ،بجری سے بنے ہوئے ڈھانچوں حتا کہ چٹانوں کو توڑ کر اندر داخل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔شہر کراچی میں 22لاکھ کونو کارپس کے پودے ہیں اگر کوئی بیماری جنم لیتی ہے   تو  کونو کارپس کے سارے پودے اس سےمتاثر ہوں گے  جو کہایک خطرناک قسم کےماحولیاتی نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ کونو کارپس کے نقصانات کی وجہ سے 2010 میں قطر نے اس پودے پر پابندی عائد کر دی 2014 میں کویت نے زیر زمین پانی والے علاقوں میں  اس کی شجر کاری پر پابندی عائد کر دی ایران نے شہری آبادی میں لگانے پر پابندی کر دی  2016 میں سندھ ہائی کوٹ نے کونو کارپس درخت کو کاٹنے کا فوری طور پر حکم جاری  کیا اور کمشنر کراچی نے  کراچی شہر کونو کارپس پر پابندی لگادی لیکن کراچی کا کوئی وارث  نہیں  اس لئے اس حکم پر عمل نہ ہو سکا ۔امید ہے قبل از وقت کوئی اہم فیصلہ کر کے کراچی کے مستقبل کو موسمی خطرات سے بچایا  جائے۔

Gilgit Baltistan Awareness conference Karachi by Agha Kamran





دنیا  میں جو  آپ کی شناخت کو متنازنہ بناتے ہیں ، جو غداری کے  فتوئے لگاتے ہیں ان کو بتانا صرف انتا ہے  کہ غور سے پہچانؤ ان کو  یہ پاکستان کے باوفا بیٹے ہیں جنہوں نے ہر مشکل میں اپنی جان سے کھیل کر   ملک  عزیز کی حفاظت کی ، ان کو پہچانؤ یہ قائد و اقبال کے پیرو ہے ،   یہ بانیاں پاکستان کی اولادین ہیں ۔ ان کو غدار کہنے سے پہلے اپنے شجرے دیکھ لینا ۔ یہ لوگ سیاچن کے باسی ، کے ٹو کے رکھوالے ہیں، یہ  لوگ  شخمہ،گلتری،بلتورو سے خنجراب تک کے امین ہیں۔
افسوس یہ ہے کہ قیام پاکستان کی غدار اولادین آج حکمران  بن کے ہم پر ظلم و ستم ڈھا رہے ہیں۔ ہماری دو اصول رہیں ، 1 : ریاست کی دی ہوئی قانون سے ایک قدم آگئے نہیں۔ 2: ریاست کی دئیے ہوئے اختیار سے ایک قدم پیچھے نہیں۔  
70 سالوں سے محرومیوں کے امبار میں دبئے ہوئے  آج بھی آواز لگا رہےہیں کہ ہمیں پاکستانی مان لو، ہمیں شناخت دو،مگر پرسان حال نہیں۔  شعور و اگاہی کے نہ ہونے کی وجہ سے  پچلے 70 سالوں سے مجبور نوجوان آج جہاں پورے پاکستان میں اپنی مدد آپ کے تحت جوانوں میں آگہی دینے ، قوم و ملت کے جوانوں کو جگانے، پاکستان کی سیاسی ٹھیکداروں کو ہوش  دیلانے کی کوشش میں  مصرف تو دوسری جانب حکومت گلگت بلتستان کی ایماء ، انا اور ان کی رضا کی خاطر وفاقی حکومت اور قومی ادارے  ان جوانوں کو شیڈول فورتھ میں لگانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ جب کہ شیڈول فورتھ میں شامل  بے شمار لوگ یا تو طالب علم ہے، یا پھر معاشرے کے معزز شہری، ان کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے یہ لوگ عوام میں شعور و آگہی، وقت اور حالات سے جوانوں، نوجوانوں اور عوام  کو آگاہ کرتے ہیں۔ یا پھر یہ لوگ سوشل میڈیا کے ذریعے  عوام النساس تک اپنی دل کی آواز پہنچاتے ہیں، جب کہ پاکستان کے آئین کے مطابق کسی بھی شخص کو جمہوری، اور قانون کے اندر رہ کر اپنی بات کرنے کی اجازت موجود ہے بلکہ یوں کہوں کہ عوام کو احتجاج  کرنے کا بھی حق موجود ہے۔ اس کے باوجود بلاوجہ ان جوانوں کو شیڈول فورتھ میں لگایا جا رہا ہے، ڈرایا، دھمکایا جارہا ہے۔ جو کہ سراسر نا انصافی ہے یا پھر سوئے ہوئے شیر کوبیدار کرنا چاہتا ہے ۔
اگر ہم بات کریں شعور اور بیداری  تو آج یعنی 2018 ء سے قبل کبھی بھی نہیں ہوا مگر اس سال نہ صرف لاہور بلکہ اسلام آباد اور سکردو میں نوجوان نے  خود سے  اپنی مدد آپ کے تحت سیمنار ز  کا انعقاد کیا  اور حکومت کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہوئی تو دوسری جانب پاکستان کے سب سے بڑے شہر ، شہر قائد  میں  بھی پروقار کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، اس کانفرنس سے حکومت گلگت بلتستان اور قانون ساز اسمبلی میں جھٹکے پڑے۔ جو قابل دیت تھا ۔
 پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار تمام سیاسی، سماجی، شخصیات ایک پرچم تلے جمع ہوئے تو یہ اعزاز گلگت بلتستان ائوئیرنس فورم کو حاصل ہوا اور اس فورم پر ہر پارٹی کے سربراہاں گلگت بلتستان کے حقوق کی جنگ میں اپنے حصہ کی دیائےجلانے کی کوشش کی،  پاک سرزمین پاڑتی، پی پی ، ایم کیو ایم پاکستان، مجلس وحدت مسلمین، تحریک انصاف  سمیت دیگر پارٹز کی رہنماؤں نے اس تقریب سے خطاب کیا۔
 آرٹس کونسل کراچی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب میں  رہنما ایم ڈبلیو ایم مولانا امین شہیدی کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے نوجوان صبح شام فریاد کر رہے ہیں ہم پاکستانی ہیں،ہمیں شناخت دی جائے، لیکن مقتدر قوتیں انہیں وطن کے بیٹے تسلیم کرنے کو تیار نہیں. خطے کے حقوق مانگنے والوں کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالے جا رہے ہیں  پاکستان نے ہمیں شناخت تو نہیں ایک عدد شناختی کارڈ دیا تھا۔ سابق جسٹس سپریم ایپلیٹ کورٹ گلگت بلتستان  سید جعفر شاہ نے کہا کہ گلگت بلتستان  کے عوام کو سپریم کورٹ تک رسائی دی جائے اور وہاں پر جاری ترقیاتی پروگراموں کا مکمل رائیلٹی وہاں کےعوام کو ملنی چاہئے، تحریک انصاف کے مرکزی رہنما علی زیدی نے کہا کہ جی پاکستان کا واحد خطہ ہے جہاں کے لوگ 92 فیصد تعلیم یافتہ ہے  یہ خطہ دنیا کے خوبصورت ترین خطوں میں سے ہے انہیں ان کے جائز اور آئینی حقوق سے محروم رکھنا پاکستان کے مفاد میں نہیں،  ان کوحقوق دے دئے جائے۔ گلگت بلتستان قانوں ساز اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر کیپٹن (ر) محمد شفیع نے کہا کہ ستر سالوں سے گلگت بلتستان کی عوام شناخت سے محروم ہے اور سی پیک جیسا اہم منصوبہ اس خطے سے گزررہا ہے  جس کی کامیانی کےلئے ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کی عوام کو مکمل آئینی حقوق دئے جائیں اور  سی پیک  میں بھر پور حصہ دیا جئے ، ان کا مزید کنا تھا  کہ ریاستی پالیسیاں گلگت بلتستان کے نوجوانوں کے جذبات مجروح کر رہی ہیں۔ گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بنایا جا سکتا تو اتنی حیثیت دی جائے جتنی انڈیا نے مقبوضہ کشمیر کو دے رکھی ہے۔آزاد کشمیر کا اپنا وزیر اعظم ہ، سپریم کورٹ ہے، دیگر ادارے موجود ہیں۔گلگت بلتستان کو اختیارات دینے میں کیا قباحت ہے؟ کیپٹن ریٹائرڈ شفیع نے مزید کہا کہ عدالت کا جی بی آرڈر 2018 کو کالعدم قرار دینا خوش آئند ہے، پیپلز پارٹی کا دیا ہوا آرڑر 2009 بھی منظور نہیں،پاک سر زمین پارٹی کے سرابراہ مصطفیٰ کمال نے کہا کہ  گلگت بلتستان محب وطن  پاکستانی ہے ان کی محرومیوں کا ازالہ کر کے آئینی حقوق دیے جائیں اور پی ایس پی گلگت بلتستان کی عوام کی حقوق کے حصول کی ہراقدام کی تائید کرے گی، گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ممبر قوم پرست رہنما نواز خان ناجی نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ  گلگت بلتستان کے 20 لاکھ عوام کو مکمل حقوق دئے جائیں، ہم نے بہت صبر کیا۔ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار نے کہا کہ جب تک گلگت بلتستان کو صوبہ نہیں بنایا جاتا ٹیکس کی وصولی بھتہ لینے کے مترادف ہے۔ گلگت بلتستان پاکستان کو پانی دے رہا ہے، بڑے بڑے ڈیمز کے لئے جگہ دے رہا ہے، سی پیک جیسی اہم بین الاقوامی شاہراہ یہاں سے گزرتی ہے، یہ ٹیکس سے بہت بڑی قیمت  ہے ۔  ایکنکر پرسن وسیم بادامی نے کہا کہ جی بی ک ے عوام کی حقوق کے حصول کے لئے اس پرمن جدوجہد کو اہمیت دینی جاہئے ، بندوق نہ اُٹھانے والوں کو حقوق سے محروم رکھنا سسٹم کی غلطی  ہے اور اس قت پارلیمنٹ کی اپنی کیا حیثیت بنتی جا رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے، گلگت بلتستان کے عوام کی ایکشن کمیٹی کے چیئر مین حافظ سلطان رئیس الحسینی  نے کہا کہ جھوٹے وعدوں سے مزید عوام کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا ، گلگت بلتستان  نہیں بنایا جا سکتا ، گلگت بلتستان کی عوا م اپنے حقوق کی حصول کے لئے جاگ چکی ہے، اور اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان سمیت تمام عالمی طاقتیں اس خطے  کی محرومیوں کا ازالہ کرتے ہوئے یہاں کے باسیوں کو مکمل آئینی حقوق دئے جائے،

تحریر : آغا کامران

جنرل حمید گل ایک مرد مجاہد




 آج ہم باتک ریں گے اس جنرل حمید گل کے بارے میں  جس نے روس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئے تھے  ہم میں سے بہت سے لوگ اس مرد مجاہد کے نام سے واقف تو ہے  مگر ان کے کارناموں کے بارے میں آج ہم بتائیں گے 80 کی دہائی کی بات ہے جب روس پاکستان   کی  گرم سمندری پانی تک رسائی حاصل  کر کے  قبضہ کرنا چاہتا تھا  اس مقصد کے لئے   افغانستان کی حکومت کے لئے اپنے ساتھ ملا دیا  اور پاکستا ن کی مغربی سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ شروع کر دی  اور افغانستان کی جنگی جہاز  روس کے ساتھ مل کر  سرحدی  علاقوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے  بلکہ بے شمار شہری علا قوں پر بمباری کر  دی  یہ صورت حال پاکستا ن کی سکیورٹی اداروں کے لئے باعث فکر تھی  پاکستان نے روس کی سازشوں کو بھاپتے ہوئے  روس کو افغانستان  میں ہی الجھانے کا فیصلہ کیا  پاکستان نے افغانستان میں آزاد مجاہدین کی  ایک کمزور مزاحتمی تحریک کو  منظم کر کے افغان مجاہدین  کو سپورٹ کیا  اور روس اور افغانستان کی حکومت  کے خلاف روس میں کھلم جہاد کا اعلان کیا  اس سارے پیلن میں جنرل حمید گل کا اہم کردار  رہا ۔ اور جب جنرل حمید گل ، جنرل اختر  رحمان کی سربراہی میں کام کر رہے تھے  تو اس وقت جنرل حمید گل  جنرل اختر عبد الرحمنٰ  جنرل آصف  سمید چند جنرلوں نے روس کو توڑنے  کا پلین بنایا  اور دیوار پر لگئے  روس کے نقشے  پر سرخ رنگ سے لکیر کھیچ دی  اور پلین کیا کہ روس اس طرح ٹوٹے گا  اور تاریخ ثابت کرتی ہے  کہ روس بلکل اسی طرح ٹوٹا  اور وہ نقشہ پاکستان آرمی کے پاس آج بھی موجود ہے  جو کو وہ اپنے نئے آنے والی ساتھیوں کی تربیت  اور ان کی مورل کو بلند کرنے لئے استعمال کرتے ہے۔ جنرل حمید گل نے  افغانستان جنگ میں  مجاہدین کو منظم کرنے میں اہم کر دار ادا کیا  اور روس کو بھاری ضرب لگانے میں کامیاب رہے  روس کے خلاف پاکستان آرمی کے جوان بھی شانہ بہ شانہ لڑے  اور پاکستان آرمی کے ہیلی کاپٹیرز  توپوں کو رات کے اندریر میں افغانستان میں پہنچادیتے  جو رات پھر روسی افواج پر بم بھاری کرتے  اور صبح ہونے سے پہلے  ان توپوں کو واپس لایا جاتا تاریخ اس جنگ کو یوں بیان کیا جاتا ہے  کہ یہ جنگ افغانستان کی سرزمین پر  روس اور پاکستان کے درمیان لڑی گئی  اور وہ وقت بھی آیا جب  پوری دنیا نے دیکھا  کہ ایک سپر پاور نے کس طرح پاکستان سے شکست کھائی  80 ء کی دھائی میں روس  کے شکست کے بعد  پاکستان نے بھارت کو واضح پیغام دیا  جو  راجیب کی سربراہی میں پاکستان پر حملہ کرنے کی سازش کر رہا تھا ۔
پاکستان میں جنرل حمید گل کی سربراہی میں پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑی  جنگی مشق  ضرب مومن کا آغاز کیا  جس کے کامیابی سے انعقاد کا سہرا بھی  جنرل حمید گل کے سر جاتا ہے  مختصر ً یہ کہ جنرل حمید گل  کی کارناموں کو چند الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے  بہت سے حلقے ، جنرل حمید گل کی طالبان سپورڈ کے خلاف ہے  مگر یاد رہے ، آج کل کے طالبان وہ طالبان نہیں جنہوں نے  افغان جہاد میں حصہ لیا تھا  بلکہ کہ ان کی بہت سے تعداد تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئی تھی  جو آج خود کو مجاہدین کہتے ہیںِ  آپ کو بیشک جنرل حمید گل سے اعتراض ہو  مگر آپ اس شخص کی حب الوطنی پر شک نہیں کر سکے  آپ کو مانا پڑے گا کہ یہ مرد مجاہد نے ملک کو بچانے کےلئے اس وقت  کے سپر پاور سے ٹکر لی  بلکہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دئے  جنرل حمید گل کے الفاظ تھے  ایک مومن کے سپر پاور صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات ہوتی ہے  میں اللہ تعالیٰ کے سوائے کسی کو سپر پاور نہیں مانتا  اور انہوں نے یہ ثابت بھی کیا۔



بدترین غلامی کی جانب سفر | Nawaz Sharif aur Shahbaz Sharif ka asli chehra | Orange train Lahore






بدترین غلامی کی جانب سفر
 کسی کو اندازہ ہے کہ ہم جیسے پسماندہ ملکوں  میں   بڑے بڑے موٹر ویز شاندار ائیر پورٹ شہری زندگی کے چمک دھمک  والے منصوبے  عالمی فاسٹ فوڈ ز کی دکانیں  ہر طرح کے فیشن برنڈ شاپنگ مال  عالمی معیار کے تھیٹر  اور سینما گھر  وغیرہ کیوں کھولے جاتے ہیں  غربت کی ماری ان اقوام کا ایسا جزیرہ نما ء  روشن چہرہ  کسی مقصد کے لئے تخلیق کیا جاتا ہے  یہ تمام پسماندہ ممالک  سرمایہ کاری کےلئے دنیا  بھر میں بدنام سمجھی جاتے ہیں ۔ لیکن کوئی سوال نہیں کرتا  کہ فاسٹ فوڈز کے رستورانونگ،فیشن کے دُکانوں  اور دیگر مصنوعات پر  آپ کی سرمایہ کاری خطرے میں کیون  نہیں پڑتی  اس ملک یعنی پاکستان میں 6 کڑور لوگ  بس کا نمبر تک نہ پڑھ سکتے ہو وہاں شاندار ائیر کنڈیشن بس چلا دی جائے  جہاں روزانہ لاکھوں لوگ  صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے جان لیوہ بیماری   کا شکار ہو جائے وہاں  ان کے کچے مکانوں اور تخفن زدہ محلوں  سے چمکتی ہوئی  موٹروے گزرے  ایک چمکدار سڑک جس کے دونوں جانب  کڑوروں مخلوفاہ رہتے ہو  ان کی بستیاں ایک ہزار سال پرانے   کے یادگار  معلوم ہو اور موٹر وئے  بڑی  بڑی گاڑیوں میں بیٹھے وہاں پر  موجود لوگ  زندگی کو ایسے دیکھے جیسے  افریقہ کی سفاری پارک میں  گاڑیاں گزارتے ہوئے  قدرتی ماحول  میں اُ جلتے کودتے جانوروں کو دیکھتے ہیں  میرے جسے غریب  و افلاس  کا شکار لیکن زمینی  وسائل سے مال لا مال  ملک ایک عالمی تماشہ گاہ ہے۔ یہ عالمی تماشہ کیوں ہے  ایسا کیوں کیا جاتا ہے  جہاں معاشی و صنعتی ترقی  کے لئے کوئی امداد مہیہ نہیں کیا جاتی جہاں  تعلیم صحت ، روزگار  کے لئے کوئی قرضہ نہیں دیتا  یہ کیوں ہے ایسا ۔
آج ہم اسی بارے میں بات کریں گے ۔
ہم غریب و افلاس کا شکارہے  زمینی وسائل سے مالامال  لیکن ایک عالمی تماشہ گاہ ہے  یہاں کے رہنے والے کڑوروں لوگوں کے تعلیم صحت ، رہائش اور روزگار  کے لئے کوئی  قرضہ نہیں دیتا  جہاں معاشی اور صنعتی ترقی  کے لئے کوئی امداد مہیہ نہیں کرتا  بلکہ صرف اور صرف  بڑے بڑے انفرا سٹیکچر  بنانے کے لئے دنیا  بھر کے ممالک  او ر عالمی مالیاتی  ادارے  دولت کی بوریاں اور بڑے بڑے سفارشات لے کر  ان ملکوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ یہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟
 ان ممالک کے سیاسی رہنماء  ، دانشور اور صحافی  اگر صرف دو کتابوں کا مطالعہ کر لے  تو انہیں ہر ایسے نشانہ دار چیزوں سے نفرت ہونے لگے  ۔ انہیں وہ مستقبل نظر آئے جو ہر اس غریب ملک کا مقدر بنا  جنہوں نے ان منصوبوں کے لئے اپنے قوموں کو قرض  کے دلدل میں اُتارا ان منصوبوں کی تعریف و تصنیف  کے شہرت کے محل کھڑے کئے  لیکن ان عوام کو صحت تعلیم ، رہائش  ،صاف پانی، امن و امان اور روزگار فراہم نہ کر سکے  ان حکمرانوں کےتختیاں  ان روپوش، موٹرویز ، تاریخی مقامات  ، ثقافتی مراکز،لٹکتی رہے اور عوام  کی نسلین غربت و افلاس  کے باوجود   ایاشئیوں کے لئے لیاگیا قرض  ادا کرتی رہے  یہ دونوں ایک ایسی معشیت دان نے لکھی ہے   جو دنیا بھر کی ممالک میں  ایسے منصوبے لے کر جاتا رہا اور ان منصوبوں  کی وجہ سے تمام ملک  بدترین انجام تک پہنچے  یہ شخص جان  پرکنز ہے  اور  اس کی پہلی کتاب 2006 میں آئی  اور دوسرے کتاب 2009 میں آئی  پہلی کتاب the confessions of economic hit men  ہے جب کہ دوسری کتاب   the secret history of American empire 2009 میں آئی خوش قسمتی کی بات ہے کہ دونوں کتابیں  کا اردو ترجمہ ایک معاشی غارت گری اور امریکی مکاریوں کے نام پر ہو چکا ہے  یہ دونوں کتابین کسی ناول کی طرح دلچپ حیرت ناک اور سنسنہ خیز  سے بھرپور ہے  اس میں پانامہ کولمبیاء ونسریلاانڈونیشیاء ، مصر اور افریقہ کے ممالک تک میں اپنی سرگرمیوں کے داستانین بیان کی ہے  اس کی کتابین پڑھنے کے بعد آپ کو رہنماؤ کی بے ضمیری ، وطن فروشی  اور بددیانتی پر رونا آنے لگتا ہے   آپ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں  کہ کھیتوں میں کام کرنے والا  سڑک پر بجر ی کوڈنے والا مشینوں پر زندگی ختم کرنے والا ، نائیاور موچی ، ترکھان  وغیرہ  ان شاندار انفراسٹیچر اور ترقی کی علامت  موٹرویز   اور شہری صہولیات پر قرضے اُتارتے اُتارے بیماری اور افلاس  میں شب و خون کر کے زندگی کی بازی ہار جاتا ہے، برکنز اپنے کتاب میں  ان سارے سازش کے تین وجہ بتاتا ہے وہ بتاتا ہے کہ دنیا بھر کے  وہ تمام امیر ماملک جن میں  کی نظر غریب ممالک  کی مادنی وسائل  پر ہوتی ہے وہ میرے جیسے  اکانمک ہٹ مین پاتے ہیں،   ان فراد کی تنخواہ اور اخراجات  وہ بڑی بڑی کنسٹریکشن کمپنیاں اور  تیل اور مادی وسائل پر   قبضہ کی خواہشمند کاپریشن  پر اُٹھاتی ہے  ان معاشی ضرب کاروں کو  جس ملک میں بیجا جاتا ہے  اس کے حوالے سے بڑے بڑے سڑکوں  ائیر پورٹ اور  دیگر خوش نماء منصوبوں  سے بھرے ائیر پورٹز تیار کرتے ہیں۔ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کس طرح  غریب ملک کو زیا دہ سے  زیادہ قرضے کے دلدل میں ڈیبویا جا سکتا ہے  جہاں  ریاستوں کی  ضرورتوں کی ہے وہاں مستقبل کی ضرورتوں کا بہانہ بنا کر  4 ریہ سڑکوں پر روز دیا جاتا ہے ۔ یہاں وہ اپنے ایک ہم پیشہ کی مثال دیتا ہے  کہ جس نے انڈونیشاء کے بارے میں ایک حققت مندانہ سکیم بنائی اسے نوکری سے نکالا گیا  اس کے بعد  پرکنز کو ذمہ داری صومپی گئی اس نے 25 گنہ لاگت کے منصوبے بنا کر پیش کئے جنہیں  عالمی بندک اور قرضہ دینے والے مامالک نے خوش دلی سے قبول کیا جب ایسے منصوبے تیار  ہو جاتے ہیں  پھر یہ ہٹ من اس ملک کی سیاسی قیادت ،بیروکریسی، اور دیگر کار پردازوں کو  انتہائی خوش نماء طریقے سے  بریفنگ دیتا ہے  اس دوران ا س کی تلاش ایسے بددیانت  لالچی بے وقوف شہرت کے بھوکے  اہل اقتدار پر ہوتی ہے جو ان منصوبوں سے سستی شہرت بھی کمائے  اور مال بھی بھٹورے یہاں ان لوگوں کا جٹھا بن جاتا ہے  ہر کوئی میٹنگ میں  ان کی وفاء ، ان کی تعریف میں رب السان ہوتا ہے یوں جب یہ منصوبے منظور  ہو جاتے ہے   تو اس امیر ملک یا  مالیاتی ادارے سے  قرضے کی رقم کا بندوبست  بس ایک کاروائی سے ہوتا ہے ۔ اور یہ کاروائی کیا ہوتی ہے  صرف اور صرف چند باتیں  وہ بھی ایسی کہ  جس کے ذریعے سے آپ یہ تخریب کر لیتے ہیں ،اس بات کا یقین بنا لیتے ہے  کہ کس طرح سے اس کو قرضہ دیا جائے گا  اور اسے کس طرح سے نچوڑا جائے گا میٹنگوں کے بعد تعارفین ، تعارفوں کے بعد  قرضہ منظور ہو جاتا ہے  اور بڑی آسانی سے  اس امیر ملک یا مالیاتی ادارے سے قرضے کا رقم بندوبست  کر دیا جاتا ہے  حیرت ناک بات یہ ہے کہ  یہ رقم اس امیر ملک  سے غریب ملک منتقل نہیں ہوتی  امریکہ ہو یا فرانس ، ترکی  ہو یا چین  اپنے کنسٹریکشن کمپینوں کو اپنے ہی ملک میں  ادا کر دیتے ہیں۔ رقم اس ملک میں رہتی ہے اور قرضہ غریب ملک کے عوام کے گردن پر، اس کے بعد ان  ہیٹ مینون کے  بتائے جالی اعداد و شمار  کی ریورٹس پر مبنی پروپیگنڈا شروع ہوتا ہے  یہ موٹر وئے بنا تو تجارت  اتنے گنا بڑے گئی۔ بندرگاہ بنے تو ملک  پورے مشرق قبصتہ   کی تجارپ پر چھا جائے گا  یہ ٹرین ، یہ بس چل پڑی تو  عا م آدمی کے  دن بدل جائیں گے  ان بسوں میں اس موٹرویز پر چلنے والی پبلک  ٹرانسپروٹ پر مفلس نادار ،  بے روزگار، انٹپر لوگ سفر کرتے ہیں، جنہیں نہ تعلیم ملتی ہے  نہ دوا، نہ گھر میسر ہوتا ہے اور نہ نوکری لیکن یہی لوگ ہے جنہیں  ان موٹرویز م بندر گاہوں  اور ائیر پورٹز کا قرضدار بھی رہتے ہیں۔جب کسی ملک پر  ڈھیر سارا قرض چڑھ جاتا ہے کو پرکچ کے مطابق  وہاں عقاء یعنی ہاکس و بیجا جاتا ہے  یہ لوگ کمپنی اور کارپورشن ہوتی ہے جن کی نظر  اس ملک کی مادنی وسائل  تیل ، لوہا، تنبہ  ، سونا ، چاندی  اور دیگر دھاتوں پر ہوتی ہے ،  کچھ وہاں کی زرعی زمینوں پر  کاپریٹ فارمنگ چاہتی ہے  یہ عقاب اس قرضے میں جھکڑے  کام کے وسائل پر یوںٹوٹتے ہیں  بھوکے  بیڑ کے افریقہ اس کی بدتریں مثال ہے  برکنز کہتا ہے کہ میں  حیران ہوتا تھا  انا افریقی  ممالک میں جہاں  کڑوروں لوگ  بھوک سے مر رہے تھے وہاں  عالمی فوڈ اور رسٹورانٹ بڑھتی  چلی جا رہے تھے  ان کو چلانے کے لئے ایک میڈل کلاس بنائے جاتی ہے جس کو کاپریٹ  کلچر  مناسب تنخواہ دیتا ہے  ایج اوز کو فنڈز ملتے ہیں  جن کے لئے مہنگی تعلیمی سہولیات  ، اور مہنگے ہسپتال  یہ لوگ ہے جو  انفراسٹیکچر کی ترقی کو اخباروں  اور ٹی ویز پر اصل ترقی بتاتے ہیں، ایسے غریب ملکوں میں  اگر کوئی نقابوں کی بات  نہ مانے  تو لیڈروںکو موت کے نید سولائے جاتے ہیں۔ چلی کا آنندے ، کانگو کا  لوبمبا اور پانامہ کا صدر اس کی مثالیں اس کے ساتھ ان ملکوں کو  حقوق کی جنگ کے نام پر  و غارتون میں لگائے جاتے ہیں۔ صرف سوڈان ، ایوانڈا ، اور داراہ فور کی لڑائی میں 40 لاکھ  لوگ مارے گئے  یوں جہاں دہشت گردوں کا  راج ہو وہاں  سے محاہدہ کرے کے  مادنیات حاصل کی جاتی ہے  اور جہاں امن ہو وہاں   حکومت کو بلیک میل کر کے  انگلولہ اس کی بدتریں مثال ہے  اگر لیڈوں کو قتل کرنے  سے بھی کام نہ چلے  تو اس ملک میں فوجیں اُتار دی جاتی ہے  یہ ہے وہ گن چکر اس لئے جب کوئی موٹروے بنتا ہے  ماس ٹرانزیکس  سکیم آتی ہے ائیر پورٹس کی توسیع ہوتی ہے  تو  میں کاپ اُٹھتا ہوں 
18 کڑور بھوکے نگوں کے اس انجام پر  یہ پہلے ان عیاشئیوںپر  قرضے ادا کریں گے اور بدترین  غلامی اور وہشی طریقے سے زندگی گزاریں گے  آپ حیران ہوں گے  یہ باتین تو بلکل عام سی باتیں ہے  لیکن آپ یہ دیکھیں  کہ اس ملک کو  کس طرح سے نوچا گیا  جب یہ حکومت ثابقہ حکومت آئی  تھی تو اس وقت موٹر ویز پر ٹیکس کی مد میں  رقم وصول کی جاتی تھی  وہ 180 روپہ وصول کی جاتی تھی  اور ب یہ 600 سے زائد اس موٹر ویز  پر ٹیکس کی مدمیں وصول کی جاتی ہے  یعنی  430 روپیہ  آپ حساب لگائیں  کہ کس طرح سے اس  ملک کو  نوچا جا رہا ہے  ۔ لاہور میں  آج سے پہلے کی 5 یا 7 بڑے ہسپتٹل تھے  اور آج یہ 5 سال حکومت کرنے کے بعد  5 یا 7 ہسپتال ہی ہے ۔ یہ تمام تر دولت کہاں گئی  کا سڑکیں بنانے سے صحت بہتر ہو جائے  گی ، کیا سڑکیں بنانے سے تعلیمی سہولیات بہتر ہو جائے گی؟
 بلکل بھی نہیں
تعلیمی سہولیات کو  بہتر کیا جائے گا، صحت کی سہولیات کو بہتر کیا جائے گا تو  ہی جا کر ملک و معاشی  ترقی کی جانب گامزن کیا جا سکتا ہے  بصور ت دیگر ہمارا حل بھی پانامہ  کولمبیاء  انڈونیشاء ، اور افریقہ جیسے  ممالک سے ہونے لگ جائے گا ۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور پاکستان کو اپنی حفاظت میں رکھیں آمیں                
     پورٹز ۔ 


پاکستانی نمبر ون اجنسی یعنی آئی ایس آئی زندہ باد


آ ج ہم بتانے جا رہے ہے ایک ایسے کہانی ایک ایسے جاجوس کی جو 7 سال تک مسلمان بن کر  پاکستان کے جیلیں کاٹتا رہا  اس جاسوس کا نام  عجیت کمار ہے  اور اس کا تعلق بھارتی انٹلی  جنٹ اجیسی  را سے تھا  جاسوسی کی تاریخ بہت پورانی ہے  اگر ایسا کہا جائے کہ انسان کی زمین پر وارت ہونے سے قبل کی ہے تو غلط نہ ہو گا  روایات میں ہے کہ  جب حصرت آدم  ؑ کی تخلق  کا رب تعلی ٰ نے فیصلہ کیا  تو فرشتوں کو حکم دیا  کہ آسمانی راز جاننے کے لئے  آسمان کا سفر کرنے والے جنات  کو واپس زمین پر دھکیل دیا جائے  فرشتون نے حکم بجا لایا اور آسمانی راز جانے کے لئے  آسمان کے دروازوں تک پہچنے والے جنات کو  آتشی پتھروں کا نشانہ بنا کر  زمین پر دھکیل دیا جاتا انسانی تمدن آگئے بڑھتا گیا  سلطنت باہم سلطنت دست و گریبان  کے لئے  جنہوں نے دشمن کا  حال اور تیاری معلوم کرنے  کی ضروت کو معلوم   اجاگر کیا اور مختلف ادوار میں با قائدہ دشمن کے خلاف  جاسوسوں کو روانہ کیا  جاتا رہا  اور ان کی بیجی جانے والی معلومات  کو مدنظر رکھتے ہوئے  جنگی تیاریاں اور چالیں  عمل میں لائی جاتی رہی  دور جدید میں جب  انسانی تمدن میں ترقی  اور کئی ممالک دنیا کے نقشے میں معرز وجود میں آچکے ہیں  ان میں سے باہم دست و گریبان  بھی ہیں ۔ کہیں نسلی بنیادوں پر اور کہی دوسروں کو نیچا دیکھانے کی کوشش جاری کرتے ہیں اور جدید تباہ کن اسلحہ کی دوڈ میں خطرناک ہتیاروں کے باری  ذخائر کو جنم دیا  وہی جاسوسی کی اہمیت  اور زیادہ بڑھ گئی ہے وطن عزیز پاکستان اس وقت  اپنے بقاء کی فیصلہ کن لڑائی کے آخری  مراحل میں داخل ہو چکا ہے  طویل عرصے سے وطن عزیز میں فرقہ وارت اور  مذہب کی غلط تشریح کر کے  جہاد کے نام پر  فساد برپا کیا گیا ہے آخر یہ فساد کون برپا کر رہا ہے   ۔
 ناظرین دشمن کو اپنے دوسرے دشمن یعنی اگر کوئی بھی شخص کسی ملک کے باسی ہے  تو اس کا دشمن ہمشہ  جنگ جیتے کے لئے اپنے جاسوسوں کے  صورت میں اپنے خبریں  بیجتا رہتا ہے  بہارتی جاسوس کلبوشن  گرفتار ہو چکا  اور اس نے اپنے اعترافی بیان میں کافی سارے اہم رازوں سے پردہ اُٹھایا ہے  بھارتی انتہاہ پسند  پاڑٹی  بی جے پی کی حکومت  نے قومی سلامتی   کا مشیر  اجیت کمار  بھی کبھی جاسوس کے روپ میں ساتھ  برس تک پاکستان کے شہر لاہور میں تائینات رہا  یو ٹیپ پر اجیب کمار  کا ایک کلپ بھی موجود ہے   جس میں وہ وطن عزیز میں جاسوسی  کے دوران  کا واقعہ سناتا ہے اس کا کہنا یہ ہے   کہ وہ مسجد بھی جاتا تھا اس کے اپنے الفاظ یہ  ہے کہ ایک روز میں  ایک ولی اللہ کے مزار پر بیٹھا ہوا تھا  تو ایک آدمی  کی سفید لمبی داڑھی تھی  اس نے مجھے اپنے   پاس بھلایا  اور کہا تم ہندو ہو میں نے کہا نہیں  اس نے کہا تم  میرے ساتھ آو  میں اس کے ساتھ چل پڑا  وہ مجھے اس مزار سے کچھ فاصلہ پر  ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گیا  اور کہا دیکھو تم ہندو ہو  میں نے کہا  آپ یہ کیسے کہ سکتے ہے  اس لئے تمھارے کان میں چھید ہے  اور تمھارے کان چھدے ہوئے ہیں  میں بھارت میں جہان کا  رہنے والا ہوں  وہاں روایت ہے  کہ پیدا ہونے کے کچھ عرصے بعد  بچے کے کان چھد دیئے جاتے ہیں  میں نے بہانہ کیا کہ میں  بعد میں مذہب تبدیل کیا  اس نے کہا کہ تم نے بعد میں بھی مذہب تبدیل نہیں کیا  بہتر ہے کہ   اس کی پلاسٹ سرجری کروا لو  اس طرح سے گھومنا ٹھیک نہیں ہے  میں نے کہا ٹھیک ہے  میں کروا لوں گا۔ اس نے کہا پوچھو گے نہیں کہ میں نے ایسا کیوں کہا  میں نے پوچھا کیوں کہا  اس نے جواب دیا اسلئے  کہ میں بھی ہندو ہوں ۔ پھر اس آدمی نے ایک الماری کھولی  اور اس میں پڑی ہوئی مورتیاں دیکھائی  اور کہا اصل میں  میں ان کی پوجا کرتا ہوں  عجیت کمار  کا یہ واقعہ  ہماری آنکھوں کو کھول دینے کے لئے کافی ہے  شاید انہی جاسوں کے پیدا کردہ حالات  کے نذاقت کے پیش  نظر  گزشتہ روز  پاکستان کے آرمی چیف جنرل  قمر جاوید باجوا  کو بھی قوم سے فسادیوں اور  ملک دشمنوں کے خلاف اپیل کرنے پر گئی ہے  آرمی چیف نے قوم کے نام اپنے پیغام  میں کہا ہے  کہ آئین اور مل کر مادر وطن کو فساد  سے پاک کریں  ملک میں بر پا یہ فساد  انہوں ملک دشمن جاسوسوںکا  پیدا کردہ ہے  وہ مختلف بہ روپ میں  پوری ملک کے عوام  میں موجود ہے  اور ہمیں  ان ملک دشمنوں کو  بے نقاب کرنا ہے  جس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے گرد و نواح پر نظر رکھے ۔
ناظرین اسی اثناء میں آپ کو جہاں ہم نے  جہاں ہم نے راء کا قصہ سنایا  اپنی پاکستانی نمبر ون اجنسی یعنی  آئی ایس آئی کا بھی واقعہ سناتا ہے 
پاکستان کی خوفیہ اجنسی آئی ایس آئی  ہمارے ملک کا وہ واحد ادارہ ہے جس پر پوری قوم کو فخر ہے  قوم کے ان جانباز بیٹوں نے  دفاء وطن کے جنگ  میں ہمیشہ دشمن کے گھر میں گز کر لڑی اور ملک کو قوم کو انگنت  بڑے سانحات سے محفوظ رکھا  اور جراعت اور بہادری  کے حوالے سے نئی داستائیں رقم کی ، کہا یہ جاتا ہے  سوئت افغان جنگ میں  پاکستان کے اس ادارے میں  اس وقت ایک عالمی طاقت  کو ناکون چنے چبوا دئے  اور پاکستان کی سرحد پر بیٹھے روس کو  نہ صرف پسپا ہونا پڑا بلکہ اس کو کئی  ٹوکروں میں بھانڈ دیا  یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جس سے پوری دنیا میں  ہماری ڈر بیٹھ گئی ہے اور آج تک آپ کو  میڈیا پر یہ واقعہ سننے کو کم ملے ہوں گے
11/9 کے واقعے کے بعد امریکہ پوری دنیا کے ہمدردیاں سمیٹنے  کر اپنے لاو لشکر  سمیت  افغانستان پر چڑھ دوڑھا امریکی اصل میں کس مقصد کے تحت خطے میں  وارت ہوئے تھے یہ راز بہت جلد پاکستانی حکام کو پتہ چل گیا اس لئے  ظاہری طور پر امریکہ کا فرنڈ لائن اتحاد ی اور دوست بن کر  نہ صرف پاکستان نے  اس کے مکرہ عزائم پورئے کرنے سے باز رکھا  بلکہ اس جنگ میں  امریکیوں نے اتنا نقصان اُٹھایا  جس میں تاریخ میں مثال نہیں ملتی
افغان جنگ شروع کرنے والے امریکیوں نے جب یہ دیکھا  کہ پاکستان ان کے عزائم جان چکا ہے  اور زبانی طور پر اس جنگ میں اس کی حمایت اور عملی طور پر  اس کےمنصوبوں  کو ناکام کرنے میں سرگرم ہے  پاکستان  میں فساد کی بنیاد رکھی گئی  بیت اللہ محسود وہ پہلا  شخص تھا  جس نے ریاست پاکستان کی خلاف جنگ کا اعلان کیا  اور یہ  صاحب طویل عرصے تک   امریکی قیدی خانے میں مقیم رہا اور یہ رہائی پا کر افغانستان  لایا گیا تھا  اور اصلحہ بارود بھی اس کو  امریکہ نے ہی فراہم کیا بظاہر اس نے شریعت  کا نعارہ بلند کیا مگر اس کا مقصد  پاکستان کو غیر مستحکم کر کے  اس حالت تک پہنچانا تھا  جس کے بعد پوری دنیا  میں واویلا مچا کر خفیہ تختی پاکستان کے دفاء کے ضامن  ایٹمی اثاثوں پر قابص ہو جائے  اسی مقصد کے لئے امریکیوں نے اسے رہا کیا تھا  اور ہر طرح کے اسلحے ، باروت اور پیسے سے  اس کو طاقت بخشی  تحریک طالبان کی بنیاد پڑتی  ہی پاکستان میں نہتے لوگوں  اور سیکورٹی اداروں پر حملے  شروع ہو چکے تھے دوسری طرف  افغانستان میں شروع ہونے والے گورلیا جنگ  امریکہ کو پریشان کئے ہوئے تھے ایسے میں  یوںکہا جائے کہ پاکستان  نے اپنے ملک کا دفاع کیا تو غلط نہ ہو گا  ان لوگوں نے سی آئی آے کے ساتھ رہتے ہوئے سی آئی آے کو  غلط اطلاعات دینے کے ساتھ  ساتھ سی آئی اے کے خوفیہ معلومات چورا لے اور  ایسے اہم لوگوں کا سراغ لگا  جو پاکستا ن میں امریکی مفادات  پورے کر رہے تھے  اس عرصے میں  ایک دفعہ انڈبل ایجنڈز نے  سی آئی اے کو قبائلی علاقوں میں  ایک اہم طالبان کمانڈر   کی موجودگی کی اطلاع دی  جس پر امریکی فوری  پر حرکت میں آگئے  اور ڈروں حملہ کر کے  مزکورہ جگہ کے پرخچے اُڑا دئے لیکن اگلئے ہی دن  امریکیوں کے حیرت اور  صدمے کی انتہاء  نہیں رہی کہ انہیں پتا چلا  کہ حملے میں انہوں نے اپنے ہی ایک اہم محرک  بیت اللہ محصود کو قتل کر دیا  ہے اس خبر  کو  سن کر امریکی دانت پس کر رہ گئے  اس کے بعد سی ائی اے نے آج تک  ان دو لوگون کو ڈھونڈ رہی ہے اور افغان جنگ ہی میں  شکست خوری کا شکار  ہونے کے بعد  2011 کے  آخر میں امریکیوں نے مطالبہ کیا  کہ پاکستان  افغان طالبان کے ساتھ  ان کے مذاکرات کا اہتمام کریں  پاکستان کے اپنے مفادات ہے  اسی لئے کسی کے ڈیکٹیشن لینے کے بجائے  ہماری عسکری قیادت  نے وہی فیصلہ کیا  جو ملک کے لئے بہتر اور دشمن کے لئے  محرک ہو  پاکستان کی طرف سے تسلی بخش جواب نہ ملنے پر  برطانوی خوفیہ اجنسی  ایم آئی 9 نے طالبان  کے ساتھ رابطہ کی کوشش شروع کی  ایسے میں کچھ لوگ  ان کے ساتھ ملے بھی  اور  کونمٹ جئم سپوٹ 007 کی مووئی  سے انپلس کرنے والے گوروں نے  شرمندگی کے مارے  اپنے اس تمام پسپاہی  اور اپنے آپ کو  ایمبرس ہونے سے بچانے لئے  میڈیا پر کوئی پیغام نہیں دیا
مختلف ہوٹلز میں سی آئی اے  کا اور را ء کے اہل کار پاکستان  میں تباہی پھیلانے کے منصوبے بنا رہے تھے  اسی دوران  ہوٹل پر حملہ ہو گیا  اور اس میٹنگ میں شریک تمام لوگ ہلاک ہو گئے   اس حملے کا الزام سی آئی اے چیف نے براہ راست آئی ایس ائی پر عائد کیا  اور اپنی ناکامی کا کھل کر اظہار کیا جب کہ انڈیا  اس معمولے میںکچھ نہیں کہ پایا  کیونکہ وہ افغآنستان میں  راء کی موجود گی سے انکار ی تھا 
2014 کی  آخر کی بات ہے جب حکومت طلبان  مذاکرات کی کوشش کر رہی تھی  اور طالبان سر براہ  حکم المحصود کی طرف سے  بات چیت پر رضا مندی  کا اظہار کیا گیا  تو اس وقت بھی سی آئی اے فور طور میں حرکت میں آئی اور  ڈرون حملے کے ذریعے اسے  حلاک کر دیا اور یہ واضح کر دیا کہ کسی قیمت پر پاکستان  میں امن نہیں چاہتے  لیکن جب تک سوچ چاند رہے گا  انشاللہ پاکستان کا نام سر بلند رہے گا  پاکستان کی پاک فضایہ  اور پاکستان کی بری فوج ، پاکستان کی نیوی  ہر وقت اپنے ملک کا دفاء کرنے  ہمیں ہمہ تن گوش ہے  ۔
دل سے دعا  کیا کیجئے کہ اللہ پاک  ہمارے اس پیارے وطن کو ہمیشہ  قیامت تک قائم و دائم رکھے آمین 
پاکستان زندہ باد
پاک فوج پائندہ باد


پاکستان اور افغانستان کی سرحد Durand line




پاک افغان سرحد

 پاکستان اور افغانستان  کی سرحد  Durand line  کہلاتی ہے ۔ جو کہ 2 ہزار کلو میٹر سے بھی زائد پر مشتمل ہے  اتنی بڑی سرحد پر غیر قانونی نقل و حمل  اور دھشت گردوں کا پاکستان میں داخلہ  کو روکنا ناممکن نظر آتا ہے  اسی مسئلہ کے حل کے لئے  پاک فوج نے ڈیورڈ لائن پر باڑ لگانے کا کام شروع کر رکھا ہے  جو کی کافی حد تک مکمل ہو چکا ہے  لیکن پاک افغان سر حد پر  پاک فوج کی جانب سے لگائے جانے والی باڑ  بہ یق وقت انڈیا امریکہ اور افغانستان  کے لئے سر درد بن گئے ہے  کیونکہ یہ لوگ کبھی بھی نہیں چاہئے کہ  پاکستان میں امن قائم ہو سکے  انڈیا اور امریکہ کے مقاصد تباہ ہو کر  رہ جاتے ہے  اگر پاکستان اس باڑ کو مکمل کر لیتا ہے
آج ہم  بات کریں گے کہ پاک افغان سر حد پر  لگائے جانے والی باڑ  پاکستان کے لئے کیسے فائدہ مند ہو گی  اور اس سے ان  انڈیا اور امریکہ کو مرچی کیون لگ رہی ہے 
بلا شبہ اس وقت پاک  فوج کی جانب سے لگائے جانے والی بار سے امریکہ انڈیا اور افغانستان کے لئے سر درد بن گئی ہے پاکستان کے متازہ ثابت سفیر  حسین حقانی نے چند دن پہلے ایک مضمون لکھا جس میں پاک فوج کے ڈیونڈ لائن پر لگائے جانے والی باڑ کو دیوار بلند سے تشبیہ دی جس نے جرمنی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا حسین حقانے کے بارے میں  یہ یقن کیا جاتا ہے  کہ وہ سی ایی اے کی ہدایت پر کام کرتا ہے  اور اس کا مزکورہ مضمون  دراصل ڈیونڈ لائن پر لگائی جانے والی  باڑ  کے بارے میں امریکی موقف  ظاہر کرتا ہے   اس باڑ پر مزکورہ ممالک کے علاوہ  پاکستان کی قوم پرست جماعتوں اے ان پی  اچکزی کے علاوہ  فضل الرحمن ٰ کو بھی اعتراض ہے     اس کا انکشاف کچھ دن پہلے حامد میر  نے اپنے پروگرام میں کیا  در حقیقت فضل الرحمن ٰ  فاٹا کو کے پی کے میں شامل ہونے سے روکنے کی کوشش اس کے پاک افغان  سرحد پر لگائے جانے والے باڑ کو روکنے کے ہی  کوشش ہے  اس کا وہ اعلانیہ اعتراف نہیں کر سکتا    اس باڑ پر اعتراض  کی وجہ تین چیزیں ہے جن کے راستے کی یہ دیوار بن گئے ہے
1 : دہشت گردوں کے نقل و حمل  ( معزیز سامعین یہ باڑ مککمل ہونے کے بعد  افغانستا ن سے پاکستان دہشت گرد  بیجنا تقریبا ً ناممکن ہو جائے گا  جس کے بعد پاک فوج کے لئے  آسان ہو گا  کہ رد دالفساد میں  جن جن دہشت گرد عناصر کے نشاندہی  ہو چکی ہے  ان کو ایک بڑے  آپریشن کی مدد سے  ایک ہی بار میں صاف کر دیا جائے گا ایک ایسے وقت میں جب  پاکستانی سیاست مین  دوسرے دہشت گردوں کے بڑے  بڑے سہولیت کارون کے  گرد گیرہ تنگ ہو چکے ہے  اگر امریکہ کا نشانہ پاکستان ہے تو  امریکہ کی 17 سالہ محنت   اور ہزاروں ارب ڈالر کا سرمایہ  ضائع ہو جائے گا  نیز سی پیک بھی  مکمل تور پر محفوظ ہو جائے گا ۔

2: افیون کی کاشت  ( افغانستا ن دنیا کی 75 فیصد افیون کاشت کرتا ہے  جس کا 90 فیصد  امریکہ جاتا ہے جسیے ہیرون میں تبدیل کر کے  امریکن کا یہ سالانہ 80 ارب  ڈالر کماتی ہے  خیال رہے کہ یہ پاکستان کا کل قرضہ 83 ارب ڈالر ہے  پاکستان کے رستے ہونے والے  افیون کی یہ نقل و حمل  متاثر ہو گی  افغانیوں کی وطن واپسی  باڑ لگنے کے بعد   افغانستان پیدل جانے والے افغانیوں کے چور راستے سے واپس آنے والے امکانات  ختم ہو جائے گا   یاد رہے  پاکستان میں مقیم  60 لاکھ افغانیوں کو  انڈیا اور ان کی پشت پر  امریکہ  اپنا اثاثہ خیال کرتا ہے  اسی لئے  امریکہ نے پاک فوج سے  پاک افغان سرحد کی نگرانی  کے لئے دئے جانے والے ہیلی کاپٹرز بھی واپس لے لی ہے  افغانستا کا انحصار  پاکستان پر کم کرنے کے لئے  پاکستان سے بہ راستہ واگہ  انڈیا کو افغانستا ن تک رسائی دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے   اور امریکہ اور انڈیا کے  مشترکہ مطالبے کے  حمایت مین اُٹھنے والے سب سے طاقتور عوام  مسلم لیگ ن کے غیر  اعلانیہ ترجمان جاوید ہاشمی کی ہے  انڈیا نے پہلی بار بہ راستہ  چہ بہار  11 لاکھ ٹن گندم  افغانستان دے دی ہے  اس سلسلے میں افغانستان ،ایران اور انڈیا کی سفارت کارون  کے درمیاں بقائدہ کانفرنس کال ہوئی ہے  آپ نے سنا ہو گا کہ ایک  ایسے وقت میں جب  کی وزارت خارجہ جب لندن  میں بیٹھ کر نواز شریف کو بچانے کے راہیں دھونڈ رہی تھی کہ اچانک  پاکستان کے سپہ سالار جنرل باجوہ نے ایرانی سفیر سے خصوصی ملاقات  کی  اشرف غنی نے  انڈیا میں بیٹھ کر  برگ ماری ہے کہ اگر  انڈیا کو پاکستان   نے راستہ نہ دیا تو ہم  پاکستان کا وسطی ایشائی راستوں سے  رابطہ کاٹ دیں گے  یہ ایک اسی شخص کی برگ  ہے جس کا کابل پر بھی کنڑول نہیں ہے باقی افغانستان میں یہ خود نقل و حرکت نہیں کر سکتے تو کسی  اور کا راستہ کیا روکیں گے 

NEXT SUPER POWER PAKISTAN CHINA AND RUSSIA DUE TO CPEC




آج سے تقریبا ً 38 سال قبال  دسمبر 1978 میں جب سویتھ یونین کے افراد افغانستان میں داخل ہوئی تو جس خطے پر دنیا پھر کی نظرئے جم گئی وہ پاکستان تھا یہ نظریں آج تک ہٹی نہیں لیاقت علی خان کی وازت عظمیٰ کے زمانے سے امریکی محبت میں گرفتار پاکستانی سیاسی اشرقافیہ  جس میں سیاست دان بیورو کیڑیٹ اور افواج شامل تھی ایک دم چونک اُٹھے  دوسرے جنگ عظیم کے بعد جو سرد جنگ شروع ہوئی یہ اس کا سب سے بڑا واقعہ تھا  پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کو یہ یقین ہو گیا تھا  کہ اگلہ نشانہ ہم ہے  یہ یقین در اصل تاج برطانیہ کے زمانے سے  دلوں میں بٹھایا ہوا خوف سے پیدا ہوا تھا کہ زار کے زمانے روس گرم پانیوں تک پہنچنے  کوشش میں ہے عسکری تجزیہ کاروں کی اکثریت اس کلیوں  کو بیان کرتی ہے کہ برطانیہ نے افغانستان میں بدترین شکست کے بعد یہ طح کیا افغانستان کو روس اور برطانوی ہندوستان ایک بفر زون کے طور پر چھوڑ کر  اپنے مورچے ڈیوڈ لائن پر مضبوط کر لیئے جائے آپ کو برطانوی ہندوستان کے کسی بھی سرحد پر اتنے مضبوط  پختہ مورچے قلعے اور ذرائے آمدرفت نہیں ملیں گے جیسے افغانستان کے سرحد پر قائم کئے گئے برطانوی  حکمران اور جنریل اکثر یہ فقرہ وہراتے تھے کہ سویت روس گرِے ایم او عبور کر گیا  تو جنگ چھڑ جائے گی دوسرے جانب اسی برطانوی ہندوستان میں روس کی طرز پر کمیونسٹ انقلاب لانے والوں کی ایک وسیع کیپ موجود تھی جو امریکہ دشمن خیلات عوام میں پھیلا نے میں انتہائی موثر تھی  کمونسٹ پارٹی کی مزدور اور کسان تنظیمیں بہت منظم تھی  ادب کے محاز پر تو کسی اور کے اجارہ داری نہیں تھی انجم ترقی پسند مصنفین میں کون تھا جو شامل نہیں تھا ساہر لدھانوی  فیض احمد فیض احمد ندیم قاسمی غرض ہر بڑا نام روس کی مدحت  اور کمیونسٹ انقلاب کے لئے نظمیں غزلین افسانے  اور ناول تحریر کر رہا تھا یہی وجہ ہے جب سویت روس نے  اتحآدیوں کے ساتھ مل کر ہٹلر سے لڑائی کا آغاز کیا  تو یہ سب کے سب طانوی افواج کے ساتھ ہو گئے اور فیض احمد فیض جیسا شاعر بھی  فوج کے شعبہ تعلوقات عامہ میں  کرنل کے عہدے پر براجمان ہو گیا ۔پاکستان کو ی کمیونسٹ تحریک ورثے میں ملی یہ تحریک ایک مضبوط  سیاسی چہرہ تو نہ بنا سکی لیکن  اس کے مزدور اور کسان انجومنیں خاصی مضبوط تھی  1970 کا ایلکشن اسی کش مکشن میں لڑا گیا مغربی پاکستان میں زلفیقار علی بٹواور مشرقی پاکستان میں  بشانی نےٍ ان امریکہ مخآلف اور کمیونزم حماد کا بھر پور فائدہ اُٹھایا  دوسرئ جانب جماعت اسلامی اور مولانہ مسعودی کا  لیٹیچر کمیونزم کے خلاف ایک مضبوط دیوار تھا   اسی لیے اس دور کا پرس جو کمیونسٹ خیلات رکھنے والوں کے زیر اثر تھا وہ مولانہ مودودی اور جماعت اسلامی کو امریکی پٹھو اور انقلاب کے راستے میں سب سے بڑی رکاورٹ لکھاتا رہا  یہ دائیں بازور اور بھائیں کے درمیان کش مکش کا دور تھا اسی لئے جب سویتھ یونین افواج روس داخل ہوئی تو پاکستان میں موجود بائیں بازو کا طبقہ مغربی سرحد کی طرف امید لگا کر بیٹھ گیا کہ کب روس کی افراج افغانستان سے پاکستان داخل ہوتی ہیں اور یہاں مزدور اور کسان کی بادشاہد قائم کرنے میں مدد کرتی ہے اس دور میں ایک کتاب بہت مقبول ہوئی جسے نیٹو افواج کی کمانڈر سر والٹرواکر نیٹ نے تحریر کیا تھا  the next Dominoاس کتاب میں اس نے دلائیل اور شواہد سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ روس گرم پانیوں تک پہنچنے کی صدیوں پورانی خواہش رکھتا ہے  کیونکہ اس کے ساحل اس قابل نہیں  کہ ان میں سرد موسم کی وجہ سے جہاز رانی کی جا سکے اس لئے وہ بزیعہ افغانستان گوادر تک پہنچنا چاہتا ہے گوادر کا نام اس وقت عالمی سکرین پر جگمگانے لگادنیا بھر کی دائیں بازوکی افواج اور حکومتیں امریکہ کی قیادت میں متحد ہو گئی اور وہ افغان جہاد شروع ہوا جس کے نتیجے میں سویت یونین بہ حیثت ایک عالمی طاقت دنیا کے نقشے سے محدوم ہو گیا اور پوری دنیا یہ سمجھنے لگی اب مدتوں تک دنیا کے اقتدار پر امریکہ کا کوئی مخالف اور حریف نہیں ہو گا آج اور اس وقت دنیا کو کس قدر حیرت ہیں کہ وہ خواب جو روس اپنی افواج اور علاقے فتح نہ کر سکا  اس کی شرمندہ تعبیر ہونے کے دن آگئے ہیں گوادر اب روس کے کئے ایک خواب نہیں بلکہ حقیقت بن چکا ہے وہ سویت یوننین جس کے سائے میں بھارت کے جواہر لال نہرواور یوگو سلاوی مارشل کنیٹو کی لان الائیٹ مومنٹ مستحکم تھی آج اسی بھارت کا نرندی مودی امریکہ کا منظور نظر ہے امریکہ افغانستان میں موجود ہے لیکن اس کی موجودگی اسکی اپنےلئے  وبال جان ہے وہ نکلنا چاہتا ہے لیکن افغانساتن کو اپنے حواری بھارت کے زیر اثر کر کے وہاں سے نکلنا چاہتا ہے امام خمنی کا مرگ بر امریکہ والا ایران اب امریکہ کا اس گیم پلان کا حصہ ہیں لیکن پاکستان کے بغیر افغانستان میں مستقل پلان کرنا ناممکن ہے اور وہ امرکہ سے روز بہ روز دور سر قطح جا رہا ہے خطے کا سب سے اہم ملک چین بھی روس کی طرح مشرق وسطح اور افریقہ تک نزیکی راستے کی تلاش میں گوادر آپہنچا ہیں سی پیک ایک ایسا لہراتا ہوا ناگ ہیں جو بھارت اور افغانسان کے راستے میں بیٹھا ہے اور کسی طاقت ور پنڈک کے بھی قابو میں نہیں آرہا سی پیک ہی وہ شہراہ ہیں جو روس کا خواب پورا کر رہی ہے شاید لوگووں کے لئے یہ خبر ہو پاکستان میں اس وقت جتنی سر گرمایہ کاری چین کے سرمایہ کار کر رہے ہیں اس سے زیادہ تو نہیں برابر ورس کے سرمایہ کار بھی اپنی سرمایہ کاری پاکستان میں لگا رہے ہیےروس کے سرمایہ سے چلنے والی عالمی کمپنی زمپل کام پاکستان کی سب سے بڑی موبائل کمپنی موبلنگ خرید چکی ہے اور اس نے پہلا کام یہ کیا کہ وارد کو بھی خرید کر اس میں زم کر لیا کمپنز میں ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے اسے دنیا کی چند بڑے نیٹ ورکون میں برابر لانا چاہتی ہیں روس اس وقت دنیا مین تیل کے ذخائر رکھنے والا ملک ہے گزشتہ سال اس کی تیل کمپنی گیز پروم نے پاکستان کے ساتھ معاہدہ کیااور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے یہ تیل اور گیس کی تلاش میں آٹھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری شروع ہو چکی ہے اس وقت بینک الفلاح کے ساتھ روسی کمپنی کے مزاکرات آخری مراحل میں ہے پاکستان کا امریکی اسلحہ پر انحصار کم سے کم ہوتا جا رہا ہے  ایف 16 کی جگہ چینی جے ایف ٹھنڈر نے لے لی ہے جو پاکستان میں بن رہے ہیے اور چین کی وجہ سے پاکستان اس میں ریجسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ میں محارت بھی رکھتا ہے دوسری جانب  گزشتہ ماہ روس کے ایم 135 ہیلی کاپٹر کی کیپ پاکستان پہچ چکی ہے اس وقت امریکہ کا صرف اور صرف ایک ہی خواب ہے کی افغانستان کی جنگ پاکستان منتقل کی جائے تا کہ پاکستان ایک مسلسل بدامنی کا شکار رہے جب کہ روس اور چین کا کا مفات پاکستان میں مستقل امن کا ہے 75 سال کے بعد دشمن دوست اور دوست دشمن میں بدل رہے ہیں عوام کو اس ے کوئی فرق نہیں پڑے گا وہ تو امن اور خوشحالی چاہتے ہیں لیکن سیاسی پارٹیز اشرافیہ کے نیدین حرام ہے جن جائیدادیں یورپ اور امریکہ میں ہے بچے وہاں رہتے ہیں  اور پڑھتے ہیں انہیں سرپرستی بھی انہی کی حاصل ہے دیکھے جیت کس کی ہوتی ہے امن و خوشحآلی کی یا بدامنی و بدحالی کی 

پاکستان نے آج تک اسرائیل کا وجود تسیلم نہیں کیا | PAKISTAN NAE DUSHMAN KO KIS TRHA PAKR LIA





پاکستان نے آج تک اسرائیل کا وجود تسیلم نہیں کیا
حتاکہ آپ پاکستانی پاس پورٹ پر اسرائیل جا بھی نہیں سکتے  
پاکستانی پاس پورٹ پر واضح واضح لکھا ہوا ہے کہ یہ پاس پورٹ  سوائے اسرائیل کے دنیا کے تمام ممالک کے لئے کارآمد ہے  جہاں پاکستان تک اسرائیل کا وجود تسیلم  نہیں کرتا وہی اسرائیل بھی پیٹھ پیچے وار کرنے  ماہر ہے اور کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا
آج ہم آپ کو بتائیں گے کیسے اسرائیل پاکستان کے خلاف محاز جنگ کھولئے بیٹھا ہے
اور اُ س کے سازشوں میں کون کون اس کا ساتھ دےرہا ہے
معززس سامعین ! بھارت افغانستان اور دوسرے ماملک کی خوفیہ اجنسیاں جن میں امریکہ اور اسرائیل بھی شامل ہے  انہوں نے مل کر ایک ٹیم  بنائیے ہیں  جن کا مقصد پاکستان آرمی کی آپریشنز کو جن کی  بدولت آج پاکستان امن کی راہ پر گامزن ہے  ان کو متازیہ بنا سکے  اور پاکستان کو پھر دہشت گردی کی آگ میں لپیٹا جا سکے 
 ایسے میں پاک فوج کے ساتھ ایسی تحریک شروع  کرنا بھی ہے کہ پاک فوج معصوم لوگوں کو مار رہی ہے  ، دشمن کی سؤل فوج کو یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ  پاکستانی عوام کو یہ تاثر دیا جائے کہ پاک ظالم ہے  اورڈالر کے لئے  اپنے ہی عوام کو مار رہی ہے  دشمن کی تیار کردہ اس سؤل فوج کے بہکاوئے میں صرف وہی  لوگ آتے ہیں  جو پاکستانی فوج کے اصولوں سے واقف نہیں
معزز سامعین ہم جانتیں ہے کہ پاک فوج   کے ہر سپاہی   شہادت کی آرزو لے کر پاک فوج جوائین کرتا ہے ،
ایک وقت تھا جب دہشت گرد کھولے عام پاکستان میں  لوگوں  کی جانوں سے کھیل رہے تھے
مگر سلام ہو اس پاک فوج کو جو جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے  دہشت گردوں کےخلاف جنگ چھیڑ دی   بہت قلیل عرصے میں دہشت گردی کے لعنت کو اُ وکھاڑ پھنکا
یہ دہشت گردی کا نٹ ورکز  دشمن نے عربوں روپہ خرچہ کر کے بنائے تھا
مگر پاک فوج  نے چند ہی سالوں میں دشمن کی اربوں روپیوں کی انوسمنٹ  پر پانی پھنکا اب دشمن کو سمجھ آئی ہے کہ جب تک پاکستان   موجود ہے ہم پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے 
اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے دشمن نے فیصلہ کیا  پاکستان فوج کےخلاف پاکستان کے عوام کے دلوں میں نفرت کے بیج بو کر  پاکستان آرمی کو کمزور کئے جائے  کیونکہ ہمارا دشمن پاک فوج سے میدان میں نہیں لڑ سکتا  کیونکہ پاک فوج کے پیچے 22 کڑور عوام کھڑی ہے  اور میں پوری دعوے اور وثوق  سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے  جس کےساتھ اس کی ساری عوام کھڑی نظر آتی ہے ۔
 دشمن سمجھ چکا  ہے پاکستان سے مقابلہ اسی صورت ممکن ہے  کہ اگر پاکستانی عوام کے دلوں سے پاک فوج کے لئے محبت ختم کر کے  نفرت پیدا دی جائے
اور دشمن اسی اجنڈے پر کام کر رہا ہے  
معزز سامعین آپ کو یاد ہے  ہو گا ہے  کہ آئی ایس آئی نے پشاور میں کاروائی  کی تھی جس کے نتیجے میں ایسے دہشت گرد مارے گئے جن کےکمر پر  شیطانی ٹاٹوز بنے ہوئے تھے  اور یہ بات بڑی وصوق سے کئے جا سکتے ہیں  جو لوگ اس دن مارے گئے تھے وہ اسرائیل کے  خوفیہ اجنسی کے لوگ تھے  یہ خوفیہ اجنڈ زبردست ٹرینگ کے بعد پاکستان بیجھئے گئے تھے
 لیکن یہ چند منٹ بھی پاک آرمی کا مقابلہ نہ کر سکئے
آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ  چند   مہینہ پہلے  پاک فوج نے ایک غیر ملکی جوڑے کو پاک فوج سے بچایا تھا  جس کےبعد غیر ملکی میڈیا نے اس  جوڑے کا انٹرویو کیا  بازیاب کروانے والے آرمی نےبڑے  زبردست انداز میں  پاک فوج کی تعریف کی اور  اس کا کہنا تھا کہ پاکستان آرمی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا حامل ہے  پاکستان آرمی  نے بڑی مہارتوں سے ہماری حفاظت بھی کی  اور دہشت گردوں کو چند منٹوں میں مار دیا   اس غیر ملکی کا کہنا تھا کہ میں نے امریکہ اور دوسرے  ملکوں میں ایسے آپریشنز بری طرح ناکام ہوتے دیکھے ہیں  لیکن پاک فوج کی جوان مردی مجھے کھبی نہ بھول سکے گی
پاک فوج سے بغض رکھنے والے لوگ یہ جان لے کہ  پاک فوج غیر ملکی جوڑے کو بچانے کے لئے  اپنی جانیں داؤ پر لگا سکتی ہے تو وہ اپنے ملک کے سچے قبالیوں پر گولیاں کیسے چلا سکتے ہیں  قبالئی لوگ پاکستان کے ایسے سچے فوج ہے پاکستان کے لئے ہر وقت لڑنے کے لیے تیار ہے ۔ پاکستان کے قبائلی افغانستا ن سے ہونے والی  حملوں کےمقابلوں میں  بہتریں فوج سمجھی جاتی ہے  
بھارت افغانستان اور اسرائیل کی اجنسیاں  ان معصوم قبائلوں کو گمراہ کرنے میں لگی ہوئی ہے تاکہ ان کو گمراہ کر کے پاک فوج سے لڑائی جا سکے اس وقت بھارت ، افغانستان، امریکہ اسرائیل کی مدد سے  پاکستان پر حملے کی تیاری کر رہا ہے اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ افغانستان میں اسرائلی فوج ڈھیرئے ڈال چکے ہیں اور امریکہ ایک بیاں بھی دے چکا ہے کہ اسرئیل کا پاکستان پر حملے پر ہم اسرائیل کی حمایت کریں گے  
اس کی جواب میں پاکستانی جوج نےجواب دیا کہ  ہم اسرائیل کو 12 منٹ میں صفہ ہستی سے مٹادیں گے اور اُدھر منظور پشین کا ٹولہ اسرائیل زندہ باد کا نعرہ لگارہا ہے  اور پاک فوج کو گالیاں دیتا نظر آرہا ہے ۔خوفیہ ذرائع سے پاک فوج کو   اطلاعت مل رہا ہے کہ اسرائل کی آب دوزیں بھی  بحریہ ہند کا رخ کر چکے ہیں ۔اور ان کا نشانہ ایران ہے  لیکن حقیتاً  اسرائیل پاکستان کو  افغانستان اور سمندر کی جانب سے گھیر رہے ہیں 
  یاد رہے کہ اسرائیل پاکستان کی ایٹمی  پروگرام تباہ کرنے کے غرض سے انڈیا میں اپنی فضایہ بھیج چکا ہے  مگر اس وقت  آئی ایس آئی نے اُس وقت  اسرائیل کے عزائم خاک میں ملا چکا ہے  اور بروقت کاروائی سے اسرائیل کو خبردار کر دیا  اور واضح کر دیا کہ اسرائیل پاکستان کو کمتر سمجھنے کہ کوشش نہ کریں اب سیدھی سی بات یہ ہے  اب اسرائیل اپنے اتحادیوں سے مل کر پاکستان کےخلاف فیصلہ کن محاز کھولنا چاہتا ہے ۔

کیونکہ پاکستان دشمنان اسلام کے آنکھوں کھٹکتا ہے اب فیصلہ مرحلہ آن پہنچاہے  ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں پاک آرمی کےساتھ دیے کر اپنے ملک کو اسرائیل کے خلاف مستحکم رکھنا ہے یا  ہمیں بھی شام و عراق بنا ہے  برائے محربانی پاکستان آرمی کا ساتھ دے اور اس وقت ڈیڈھ لاک آئی ڈیز پاکستان آرمی کے خلف کا م کر رہی ہیں  اور ان کام صرف پاکستانی عوام میں پاکستانی آرمی کے لئے نفرت پیدا کرنا ہے ان کا مقابلہ کرنا بھی ہم عام پاکستانیوں پر فرض ہے کہ ایسی آئی ڈیز کو بلاک کریں اور ساتھ ہی ساتھ رپورٹ کریں  اور ایک محب وطن پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں دعا ہے کہ اللہ ہمارا اور پاک آرمی کا حامی و ناصر ہو

Poor Boy from Sahiwal Becomes a Billionaire in America | edible arrangements


ہم اگر محنت کرتے رہیں اور سمت سہی رہے ان کا صلہ کہی نہ کہی ملیں گے اس ویڈیو میں میں آپ کو انتہائی حیرت انگیز کہانی سنانے جا رہا ہوں جو انتہائی دلچسب اور موٹویشنل بھی ہیں یہ کہانی  Edibale Arrangment comuney کے مالک اور سی ای او طارق فرید کی ہے طارق فرید ایک امریکن پاکستانی ہے ان کا تعلق پاکستان کے شہر ساہیوال کے ایک گاوں سے ہے طارق فرید اس وقت امریکہ کی امیر ترین لوگوں میں سے ہیں ان کی کمپونی ہر سال اربوں روپیوں کی پرفیٹ کماتی ہے ۔ ان کی کمپنی فلوں کو گلستوں میں سجا کر بیجتی ہے جیسے کی پھولوں کا گلدستہ ہوتا ہے طارق فرید نے پھولوں کی جگہ پھل لگا کر بھیجنا شروع کر دیا جو کی بلکل پھولوں کی طرح لگتی ہے لیکن اس گلدستے کو لوگ کھا  بھی سکتے ہیں یہ آئیڈا امریکہ میں کلک کر گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے طارق فرید کی زندگی تبدیل ہو گئی لیکن دوستوں طارق فرید سونے کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوئے تھے ان کی کہانی انتہائی دلچپ ہے طارق فرید 1969 ء میں سائیوال کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے یہ چھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں انکے مطابق ان کے والد کو پھل کھانے کا بے حد شوق تھا۔ان کے والد ان کے گرمیوں میں آم لے کر آتے تھے یہ لوگ ٹب میں برف ڈالتے اور پوری فیملی مل کر آم کھایا کرتی تھی اسی طرح یہ لوگ مختلف پھلوں کو شوق سے کھاتے تھے لیکن ان کو یہ نہیں پتا کہ یہ پھل ایک دن ان کی زندگی تبدیل کر دے گی ،طارق فرید جب 12 سال کے تھے تو ان کے والد کو امریکہ جانے کا موقع ملا ان کے والد کے ایک دوست امریکہ میں رہ رہے تھے اور یہی دوست طارق کی پوری فیملی کو امریکہ بولانے کے لے تعاوں کرنے کو تیار تھے طارق کے والد امریکہ جانے کا فیصلہ کر لیا طارق کے مطابق ان کو امریکہ جانے سے صرف ایک مہینہ پہلے پتہ چلا کہ انکی پوری فیملی اور یہ امریکہ شفٹ ہو رہے ہیں ان کی والدہ نے ان کے لئے اور ان کے بہن بھائیوں کے لئے کچھ پنٹس اور ٹی شرٹس خریدی اور بس یہ فیملی پیسے والی نہیں تھی اور ان کو پتہ تھا کہ ان کو شروعات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا دوستوں 1981 ء میں 11 سال کی عمر میں طارق فرید امریکہ پہچ گئے یہ 8 فیملی ممبرز تھے ۔ نیا ملک اور ان میں سیٹلٹ ہونا انتہائی مشکل کام تھا ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے ، طارق کے والد ایک میکنک کے حیثیت سے کام کرنا شروع ہو گئے اور شام میں میکڈونلز میں کام کیا کرتے تھے تاکہ اپنے فیملی کا پیٹ بھر سکے طارق کے مطابق ایک دفعہ امریکہ میں ان کا آم کھانے کا دل چاہا۔یہ لوگ آم خریدنے ایک سٹور گئے لیکن وہاں آم انتہائی مہنگے تھے ایک آم ایک ڈالر کا تھا اور طارق کے والد پیسہ ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے اور یہ آم بھی خرید نہین سکے طارق فرید سب بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے اور اپنے گھر کی مالی حالت کو دیکھ کر یہ مالی سپورٹ کرنا چاہتے تھے دوستوں باہر کسی بھی نوکری کو بھرا نہیں سمجھا جاتا چاہئے آپ سکیورٹی گارڈ ہو یا سیلز مین آپ کو اپنے محنت کے اچھے پیسے مل جاتے ہیں طارق نے بھی پڑھائی کے ساتھ ساتھ چھوٹی موٹی نوکری ڈھنڈنا شروع کر دیا اپنے گاؤں میں اچھےخاصے زندگی گزارنے والے طارق نے گھروں میں اخبار ڈلیور کیا رسٹورنٹ میں برتن دھوے لوگوں کے لان کی گاس کاٹی اور برگر کنگ میں بھی نوکری کی یہ تمام پیسے اپنے والدہ کو دے دیا کرتے تھے 1886 میں جب ان کی عمر 16 ،17 سال کے تھے طارق کے والد نے 6 ہزار ڈالرز کی ایک چھوٹی سی پھولوں کی دکان خریدلی یہ پیسے بھی انہون نے ادھار لے تھے  طارق بھی اسی دکان میں کام کرنا کرنے لگے دوستون وقت گزرتا گیا اور طارق کی فیملی کا گزارہ اچھے طریقے سے ہونا شروع ہو گیا لین 1999 ء میں طارق اور ان کی فیملی کی زندگی تبدیل ہونے جاری تھی طارق کے ذہن میں ایک آئیڈا پیدا ہوا انہؤں نے سوچا کہ یہ لوگ جیسے پھولوں کے گلدستہ بنا کر بھیجتے ہیں کیونہ ہم پھولوں کے گلدستے بنا کر بھیچنا شروع دے دوستوں ایک اچھا آئیڈیا انسان کی زندگی تبدیل کر سکتا ہے اس وقت کچھ کمپنیز ایسے گلدستے بنا تو رہی تھی لیکن وہ نہ ہونے کے برابر تھی طارق اور ان کی فیملی ویسے ہی پھل کھانے کے بے حد شوقتین تھے اور انہوں نے فوراً اس آئیڈیا پر کام کرنا شروع کر دیا انہوں نے تجربے کے طور پر اپنے کچھ کسٹمرز کو پھلوں کے گلدستے فری میں دینا شروع کر دیا کسٹمرز متاثر ہتے اور کتہے کہ وہ ایسے اور گلدستے خریدنا چاہتے ہیں ایک دفعہ ان کو 28 آڈر ایک ساتھ مل گئے اس وقت ان لوگوں کے پاس ایسے گل دستے بنانے کے مشین بھی موجود نہں تھی اور یہ لوگ ان گل دستوں کو پوری پوری رات بیٹھ کر اپنی ہاتھوں سے بناتے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے طارق اور ان کی فیملی کا یہ edible کا کاروبار بڑھتا چلا گیا انہوں نے اپنے فرنڈچائیز بھی مختلف لوگوں کو بھیجنا شروع کر دی اور آہستہ آہستہ نہ صرف امریکہ میں بلکہ ان کی کمپنی دنیا کی مختلف ملکوں میں پھیل گئی آج صرف امریکہ میں طارق اور ان کی فیملی کی 1200 سے زائد سٹورز ہیں ان کی کمپنی کی سالانہ شئیرز 600 میلن ڈالرز یعنی 80 ارب سے زیادہ ہیں آج طارق نہ صرف پھلوں کا گلدستہ بناتی ہیں بلکہ چاکیلڈ فوڈز بھی بھیجتی ہیں طارق کے مطابق ان کی والدہ جو اس کمپنی کے شروع ہوتے ہی وفات پا گئی تھی ان کو ایک وصیت کر کٓر گئی تھی اور وہ یہ تھی کہ کبھی مت بھولنا کہ تم کہاں سے آئے ہو اورتم پہلے کیا تھے دوستوں طارق اور انکے کمپنی آج امریکہ میں مشہور ہے ۔ان کی کہانی ہم سب کو ہی سکھاتی ہیں کہ وسائل نہ ہونے کا رونا رو کےہم کبھی بھی آگئے نہیں بڑھ سکتے بلکہ حالت کا مقابلہ کر کے زندگی میں کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں  

Sunopak

PropellerAds