سوشل سائنس کے طلباء کے مسائل اور ان کا حل
سوشل سائنس کے طلباءکی کیرئیر کونسلنگ
پاکستان میں نسل نو کو درپیش مسائل دن بہ دن بڑھتی نظر آتی ہیں عوام جہاں مالی، سیاسی و سماجی مشکلات میں گھیرے ہوئے ہیں وہی پر ایک پڑھےلیکھے نوجوان اپنی مستقبل سے بےحد پریشان نظر آتے ہیں اورخاص طور پر سماجی علوم کے طلباء،یہ طلباء جہاں خود کو سماجی سائنٹسٹ کہتے ہیں وہی پر یہ لوگ سماجی کارکن بھی ہوتے ہیں مگر والدین بلکہ یوں کہوں کہ معاشرہ ان طلباء کو قبول ہی نہیں کرتے جبکہ دنیا بھر میں حکومت سوشل سائنس کے لوگ کر رہے ہیں، دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کے اس جدید دور میں انسانیت اور حیوانیت کی پہچان یہی لوگ کروا رہیں ہیں،اقوام عالم میں جن کی بات چلتی ہے یاجن کی بات سنی جاتی ہے وہ سماجی علوم کے لوگ ہیں،سیاسی طور پر دنیا بھر میں حکومت سماجی علوم کے لوگوں کے ہاتھوں میں،معاشرتی انتظامات ان کے ہاتھ میں ،سماجی مسائل کا حل ان کے ہاتھ میں،آئندہ آنے والے 20 سالوں کے بعد سب سے زیادہ سکوپ سماجی علوم میں ہوگا۔
آج اگر ایک طالب علم ماسٹر یا بی اے کیا ہوا ہو ان کو معاشرے میں نوکری نہیں ملتی ، بین اقوامی جامعات میں داخلے نہیں ملتے اس کایہ مطلب نہیں کہ ان علوم میں سکوپ نہیں بلکہ دو طرح کے مسائل ہوتے ہیں یا تو اس طالب علم میں وہ خصوصیت نہیں جو اس قابل ہو کہ نوکر حاصل کرے یا پھر اسے صحیح سے گائنڈنس نہیں ملتا۔ ہاں ایک بات قابل ذکر ہیں کہ پاکستان کے بیشر جامعات،سکول اور کالجز میں طلباء کو اردو میڈیم کےذریعے تعلیم دی جاتی ہیں جبکہ ایم۔فل،پی۔ایف۔ڈی، بین الاقوامی جامعات یا پھرکسی جگہ نوکری کا ٹیسٹ انگریزی میں دینا پڑتا ہے،جس کےباعث وہ طالب علم اپنی کمزوری کی وجہ سے کامیابی حاصل نہیں کر سکتی۔
پاکستان میں ایچ ۔ایس۔سی کو چاہیے کہ جامعات، سکول اور کالجز میں اردو میڈیم ہی ختم کریں یا پھر ٹیسٹ وغیرہ اردو میں دی جائے جو شاید کچھ لوگوں کے لئے ہسی کی بات بنے مگر میرے ایک مطالعے کے مطابق پاکستان خصوصاً کراچی میں بے شمار طالب علم بے روزگار اسی وجہ سے ہیں کیونکہ جہاں بھی انٹروی کے لئے جائے وہاں انگریز ی بولی جاتی ہیں،جبکہ ان کو اردو میں تعلیم دی گئی ہے،جس کے باعث وہ نوکری حاصل نہیں کر سکتا اور بےروزگار رہ جاتا ہے۔یا پھر وہ طالب علم انگریزی سیکھ لے ۔
ایک مطالعے کے مطابق پاکستان میں 65 فیصد جوانوں میں سے صرف 1فیصد لوگ جامعات تک پہنچ جاتے ہیں اور 0.5 فیصد لوگ جامعات سے فارغ ہوتے ہیں،دوسری جانب صرف0.2 فیصد لوگ آگے پڑھتے ہے جبکہ0.2 فیصد لوگ نوکری پر لگ جاتے ہیں ، اگر یہ اوسط ہے تو پاکستان میں معاشی،معاشرتی،سماجی و اخلاقی بدحالی کی وجہ کون ہو سکتاہیں؟؟ پاکستان کا مستقبل کیا ہو گا؟ کون سوچے گا؟ کون ان مسائل کو حل کریں گے؟ بےشمار سوالات عوام اور خصوصاً جوانون کے ذہنوں میں آتے ہیں جن کا شاید کوئی جواب نہ دے سکے۔
مگر جہاں اندھیری رات ہووہی صبح نو کا بھی امید ہوتا ہے،زمانہ ہم سے ہیں ہم زمانے سے نہیں۔ سانئس اور ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو ٹائم نہیں دے پاتا، معاشرتی ساخت ختم ہوتا جا رہا ہے،انسانیت کی بھو دور دور تک نہیں آتی، ہر جگہ ظلم و بربریت،مظلوم پسے جا رہے ہیں،ظالم دن بہ دن طاقتور ہوتا جا رہا ہے ،جس کی لاٹھی اس کی بینس بنے ہوئے ہیں مگر ان سارے مسائل کا حل سانئس کے طالب علم یا کامرز کے طالب علم کے پاس نہیں ہوتا بلکہ سماجی علوم کے لوگ ہی ان مسائل کا حل بتا سکتے ہیں ۔ معاشرے کو سماجی علوم کے طالب علوم کو قبول کرنا ہو گا بصورت دیگر معاشرہ اپنے آپ مر جائے گا۔
آج کے اس جدید دور میں ایک سماجی طالب علم کو ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ دنیا سے خود کو الگ نہ رکھے،سائنس اور ٹیکنالوجی کا استعمال بھی آئے، کسی بھی فیلڈمیں خود کو ضم کریں ، دوسرسے لوگوں کو لگے کہ یہ بندہ اسی فلیڈکا ہی ہیں، سماجی علوم کے طالب علم اساتذہ سے مربوط رہے، اور جدید سہولیات کے استعمال سے اپنی علم میں اضافہ کرئے۔
لوگ سماجی علوم کو انتہاہی آسان سمجھتے ہیں جبکہ یہ سائنس کے علوم ،اور کامرز کے علوم سے کچھ کم نہیں، ان علوم میں پریکٹسز کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ سماجی علوم میں مطالعہ کی ضرور ہوتی ہے، سائنسی علوم میں تجربہ لیب میں بیٹھ کر ایک فارمولے پر کی جاتی ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ فارمولے پہلے سے ہی حل شدہ ہوتا ہے جبکہ سماجی علوم کا تجربہ گاہ معاشرہ ہے جو لیب میں بیٹھ کر تجربہ کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔معاشرے میں مختلف قسم کے لوگوں کے روئے، ان کی باتیں،ان کا کلچر پر بحص کرنا ،کسی بھی سائٹ ایریا میں جا کر خواتین کے مسائل یا معزور افراد کے مسائل پر بات کرنا اتنا آسان نہیں جو لو گ گھر بیٹھ کے فیس بک پر تنقیدکرتے ہوئے سمجھتے ہو۔
میں تو کہتا ہوں دنیا کا مشکل ترین فیلڈ سماجی علوم کے فیلڈ ہیں ، اس فیلڈ میں وہی بندہ آئے جو لوگ سے مختلف روئے ،عادات کو سمجھ سکے اور ان کے مسائل کی حل کے لئے اپنے اندر جزبہ رکھتے ہو۔اس فیلڈ میں جذبے کے ساتھ ڈگری حاصل کر سکتے ہیں نہ کہ جذبات کے ساتھ۔
مختصر اً انتا کہوں کہ اس فیلڈمیں وہی بندہ کامیاب ہے جو مسمم ارادے،اپنی بلند سوچ،لا محدود انسانی خدمت کے جذبات،اور خود ی کو مٹا کے لوگوں کے بارے میں خیال کرنے والے افراد کامیاب ہیں ۔ تایخ اُٹھا کر دیکھے تو معلوم ہو گا کہ سماجی علوم اور سماجی کارکن نہ ہوتے تو معاشر ہ آج کہاں ہوتا، ایدھی ویلفئر،اکبریہ نٹ ورک،سیلانی ویلفئر، کاروان حیات یا حلال احمر وغیرہ نہ ہوتے تو شایدآج سڑکوں پر لاشوں کاڈھیر ہوتا،طالب علم کی رہنمائی نہ ہوتی،غریب بھوکے مر رہے ہوتے، مسکین ،یتیم بے یارو مددگار ہوتے ، غریب نفسیاتی مریض آج گلی کوچوں اور سڑک کنارے مر رہے ہوتے، قدرتی آفات سے بچنا مشکل نہیں بلکہ ممکن ہوتا ہے جوکہ سماجی بہبود کے لوگوں نے کر دیکھایا ،مگرضرورت اس امر کی ہے کہ جو شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
مٹا دےاپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہیے
کہ دانا خاک میں مل کر گل ِگلزار بنتا ہے۔


No comments:
Post a Comment