بلتستان میں بڑھتی ہوئی نفسیاتی امراض کی شرح انتہائی خطرناک حد تک پہنچ گئے
پچھلے 2 سالوں میں مریضوں کی تعداد میں 80٪ اضافہ ہوا۔ 4500 سے زائد مریض کی فائل بن گئی اور علاج جاری ہے۔
بلتستان ریجن میں سہولیات کی کمی کے باعث مریض اور ان کے فیملی شہروں کی طرف روخ کرنے پر مجبور ہیں۔(آغا کامران)
سائیکالوجسٹ، میڈیکل سوشل ورکر اور آو ٹی کی نہ ہونے کے باعث مریض شہروں میں ٹھوکریں کھانے پر مجبور( آغا کامران)
سکردو ( پ۔ر) رواں برس اب تک ہزاروں کی تعداد میں مریضوں کا کراچی، لاہور، اسلام آباد سمیت پاکستان بھر کے مختلف شہروں میں علاج کرنے پر مجبور ان خیالات کا اظہار پرفیشنل میڈیکل سوشل ورکر آغا کامران نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ان کا کہنا تھا کہ ریجنل ہیڈکواٹر ہسپتال میں اب تک نفسیاتی یونٹ قائم نہیں ، نہ ہی کوئی واڈ مختص ہے ۔ جس کے باعث مریضوں کی فیملی کو شیدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ نفسیاتی مریضوں کو جنرل واڈز میں رکھا جاتا ہے جو کہ بے حد خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ، اور ہیلت ڈیپارمنٹ کے اعلیٰ حکام کو چاہئے کہ نفسیاتی مریضوں کا الگ وارڈ بلکل ایک الگ یونٹ قائم کیا جائے جس میں نفسیاتی مریضوں کو دوران داخلہ یا آوڈ ڈور مریضوں کو ادارہ برائے ذہنی بحالی Rehabilitation سروس مہیا ہو ۔نہایت اہم بات یہ ہے کہ آر ایچ کیو میں پچھلے 2 سالوں میں مریضوں کی تعداد میں 80٪ اضافہ ہوا۔ 4500 سے زائد مریض کی فائل بن گئی اور علاج جاری ہے۔جو کہ صرف دوائیوں پر انحصار ہے جب کہ ان مریضوں کو Rehabilitation کے بغیر شاید دس میں سے ایک مریض ٹھیک ہو یا وہ بھی نہ ہو۔ جبکہ ماہر نفسیات کے مطابق اگر مریضوں کو بروقت علاج کےساتھ Rehabilitation سروس مہیا کیا جائے تو جلد ریکور کیا جا سکتا ہے۔ اور بلتستان ریجنل ہسپتال میں صرف او پی ڈی کیا جا تا ہے جب کہ ریجل ہسپتال میں نہ کوئی سائیکالوجسٹ ہے اور نہ کوئی میڈیکل سوشل ورکر نہ ہی او ٹی ہے اور نہ کوئی Rehabilitationسروس، اس ضمن میں ان کا مزید کہنا تھا کہ بلتستان ریجن میں سہولیات کی کمی کے باعث مریض اور ان کے فیملی شہروں کی طرف روخ کرنے پر مجبور ہیں

No comments:
Post a Comment