سماجی بہبود میں ماسٹر کرنے کے بعد یہ بات سمجھ آیا کہ ہمارے معاشرے میں سانئنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور تحقق کو بڑی پزیرائی ملتی ہے۔۔۔۔۔
جبکہ انسان اور انسانیت کی خاظر کی جانے والے تحقیق اور تجربوں سے لوگ صرف ایی جی اوز چلانے،جامعات کے لائبریزز میں تحقیقی مقالے ڈمپ رکھنے یا پھر پروجکٹ بنا کے پیسے کمانے کے سوا یہ تحقیق کسی کام کے نہیں ۔۔
اگر ایسا نہیں تو آج ہمارے معشرے میں انسانیت کی بھوکے نظر نہیں آتے، دن بہ دن لوگ اپنے انا میں مصروف نظر آتے ہیں اور غریب طبقہ دن بہ دن غریب ہوتے جا رہے ہیں حقوق العباد جو کہ ہر انسان پر واجب / فرض ہیں مگر لوگ بھوک پیاس ، افلاس و غربت کی وجہ سے مرتے نظر آتے ہیں ،،، سماجی بہود کے ادارے دن بہ دن اپنی اہمیت ، فرائض کم ہوتے دیکھتے ہیں۔۔۔ ہاں بلکہ ایک چیز یہ بھی ہے کہ
سماجی بہبود اور سماجی علوم پاکستان میں ختم ہوتے نظر آرہیے ہیں وجہ خدا ہی جانتا ہیں مگر وہ وقت دور نہں جب ہر گھر سے کم از کم ایک بچے کو سماجی علوم میں ماسٹر کرنے پر زور دیا جائے گا ، جہاں ہر سوسائٹی اور ہر طبقے کے لوگ سماجی اہمت کو سمجھے کے بعد اس علوم کی طرف آئیں گے مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ سائیس اور ٹیکنالوجی لوگوں کو بے انتہا مصروف کیا ہوا ہو گا کسی کے پاس ٹائم نہیں ہو گا کہ وہ والدیں سے ملاقات کریں خیریت پو چھے، ماں کا پیار لے، بہن بھائیوں سے شفقت بھانٹے،محلے والے بھوک پیاس اور افلاس و غربت کی وجہ سے مر چکے ہو ں گے مگر آ پ کو خبر ہونے سے پہلے ان کی تدفین ہو چکا ہو گا۔۔۔
یہ وقت آج امریکہ سمیت ترقی یافہ مماملک میں دیکھی جا سکتی ہیں افسوس اس بات پہ ہوتا ہے کہ لوگ پڑھے لکھے انپڑ بنتےجا رہیے ہیں ، انسانیت ختم ہوتی جا رہی ہے، کہی پر سیاسی کھیل کھیلا جا رہا ہے تو کہی پہ معاشی کہی پر سائنس اور ٹیکنالوجی اپنا رنگ دیکھانے میں مصروف ہیں تو کہیں پہ انسانیت کا جنازہ اُٹھا کر کے لوگ دانت دیکھاتے نظر آتے ہیں جی ہاں میں پاکستان کی بات کر رہا ہوں ۔
ہاں وہ پاکستان جسے قائد نے اسلام ناب کی پرچار اور اسلامی تعلیمات کی تحقیق کے لئے بنائے تھے ہاں وہ پاکستان جس کی خاطر بے شمار لاشئے اُٹھائے تھے ہاں وہ پاکستا ن جو آج بھی اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں، ما سوائے پاکستان آرمی کون
اس ملک سے مخلص ہیں ،کون اس کی بقاء کی ضمانت ہیں ، سیاسی ٹولے اپنے بقاءکے لئے پریشان ہے تو کاروباری حضرات اپنی کاروبار کے لئے پریشان سائنسدان اپنے تحقیق کو صحیح ثابت کرنے میں مصروف مگر ایک طبقہ ہےجو واقعاً کام کر سکتے ہیں وہ ہے سماجی علوم کے طالب علم ، وہ ہے سماجی محقیق، وہ ہے ہم ہاں ہم ہیں جو ملک خداد کے محفظ ہیں
سماجی علوم کو عام کرنے کی ضرورت ہیں جس کے لئے بے شمار قربانی کی دینا پڑے گا۔ سماجی علوم پڑھانے والے ادارے ، ایچ ایس سی اور جامعات کو بھی چاہئے کہ سماجی علوم کے دروازے کھولے تا نئی نسل نو تحقیق کر کے دنیا کو دیکھائے کہ انسانیت کیا چیز ہیں، اس کی کیا اہمیت ہیں۔
بائیولوجی، کیمسٹیری ، سمیت دیگر علوم پڑھانے والے ادارے اور شعبہ جات کے ماہریں اپنے علوم کی خاطر صبح ، شام اور آج کل رات کو بھی بچوں کو کلاسس رکھتے ہیں وجہ یہی ہیں کہ یہ علوم / شعبہ دن بہ دن ترقی کی راہ پر گامزن ہیں، سماجی علوم کے ادروں کو بھی چاہئے کہ بچوں کو حصول علم کے لئے شرائط کم کر کے تحقیق کرنے دے جائے، مینسڑی آف سوشل ویلفئیر کو بھی چاہئے کہ سوشل ورک کی ترقی کے لئے این جی اوز بنانے کے بجائے ایج ایس سی سے بات کرئے اور پاکستان بھر کے سکول کالجز اور جامعات میں سوشل ورک کے علوم کو عام کرئے اور سلیبس کا حصہ بنایا جائے
بصورت دیگر وقت مشکل کی طرف جا رہئے ہیں اور سماجی بہبود میں ڈیگری لینے والے طالب علم مارکیٹنگ، سیاست، اور چوکیداری کے سوائے کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہیں گے ابھی بھی وقت ہیں آپ اور ہم مل کر اس کر ترقی اور خوشحالی کے لئے میدان میں آئے نہیں تو کل آنے والے نسل نو ہمیں معاف نہیں کریں گے ۔۔۔
جبکہ انسان اور انسانیت کی خاظر کی جانے والے تحقیق اور تجربوں سے لوگ صرف ایی جی اوز چلانے،جامعات کے لائبریزز میں تحقیقی مقالے ڈمپ رکھنے یا پھر پروجکٹ بنا کے پیسے کمانے کے سوا یہ تحقیق کسی کام کے نہیں ۔۔
اگر ایسا نہیں تو آج ہمارے معشرے میں انسانیت کی بھوکے نظر نہیں آتے، دن بہ دن لوگ اپنے انا میں مصروف نظر آتے ہیں اور غریب طبقہ دن بہ دن غریب ہوتے جا رہے ہیں حقوق العباد جو کہ ہر انسان پر واجب / فرض ہیں مگر لوگ بھوک پیاس ، افلاس و غربت کی وجہ سے مرتے نظر آتے ہیں ،،، سماجی بہود کے ادارے دن بہ دن اپنی اہمیت ، فرائض کم ہوتے دیکھتے ہیں۔۔۔ ہاں بلکہ ایک چیز یہ بھی ہے کہ
سماجی بہبود اور سماجی علوم پاکستان میں ختم ہوتے نظر آرہیے ہیں وجہ خدا ہی جانتا ہیں مگر وہ وقت دور نہں جب ہر گھر سے کم از کم ایک بچے کو سماجی علوم میں ماسٹر کرنے پر زور دیا جائے گا ، جہاں ہر سوسائٹی اور ہر طبقے کے لوگ سماجی اہمت کو سمجھے کے بعد اس علوم کی طرف آئیں گے مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ سائیس اور ٹیکنالوجی لوگوں کو بے انتہا مصروف کیا ہوا ہو گا کسی کے پاس ٹائم نہیں ہو گا کہ وہ والدیں سے ملاقات کریں خیریت پو چھے، ماں کا پیار لے، بہن بھائیوں سے شفقت بھانٹے،محلے والے بھوک پیاس اور افلاس و غربت کی وجہ سے مر چکے ہو ں گے مگر آ پ کو خبر ہونے سے پہلے ان کی تدفین ہو چکا ہو گا۔۔۔
یہ وقت آج امریکہ سمیت ترقی یافہ مماملک میں دیکھی جا سکتی ہیں افسوس اس بات پہ ہوتا ہے کہ لوگ پڑھے لکھے انپڑ بنتےجا رہیے ہیں ، انسانیت ختم ہوتی جا رہی ہے، کہی پر سیاسی کھیل کھیلا جا رہا ہے تو کہی پہ معاشی کہی پر سائنس اور ٹیکنالوجی اپنا رنگ دیکھانے میں مصروف ہیں تو کہیں پہ انسانیت کا جنازہ اُٹھا کر کے لوگ دانت دیکھاتے نظر آتے ہیں جی ہاں میں پاکستان کی بات کر رہا ہوں ۔
ہاں وہ پاکستان جسے قائد نے اسلام ناب کی پرچار اور اسلامی تعلیمات کی تحقیق کے لئے بنائے تھے ہاں وہ پاکستان جس کی خاطر بے شمار لاشئے اُٹھائے تھے ہاں وہ پاکستا ن جو آج بھی اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں، ما سوائے پاکستان آرمی کون
اس ملک سے مخلص ہیں ،کون اس کی بقاء کی ضمانت ہیں ، سیاسی ٹولے اپنے بقاءکے لئے پریشان ہے تو کاروباری حضرات اپنی کاروبار کے لئے پریشان سائنسدان اپنے تحقیق کو صحیح ثابت کرنے میں مصروف مگر ایک طبقہ ہےجو واقعاً کام کر سکتے ہیں وہ ہے سماجی علوم کے طالب علم ، وہ ہے سماجی محقیق، وہ ہے ہم ہاں ہم ہیں جو ملک خداد کے محفظ ہیں
سماجی علوم کو عام کرنے کی ضرورت ہیں جس کے لئے بے شمار قربانی کی دینا پڑے گا۔ سماجی علوم پڑھانے والے ادارے ، ایچ ایس سی اور جامعات کو بھی چاہئے کہ سماجی علوم کے دروازے کھولے تا نئی نسل نو تحقیق کر کے دنیا کو دیکھائے کہ انسانیت کیا چیز ہیں، اس کی کیا اہمیت ہیں۔
بائیولوجی، کیمسٹیری ، سمیت دیگر علوم پڑھانے والے ادارے اور شعبہ جات کے ماہریں اپنے علوم کی خاطر صبح ، شام اور آج کل رات کو بھی بچوں کو کلاسس رکھتے ہیں وجہ یہی ہیں کہ یہ علوم / شعبہ دن بہ دن ترقی کی راہ پر گامزن ہیں، سماجی علوم کے ادروں کو بھی چاہئے کہ بچوں کو حصول علم کے لئے شرائط کم کر کے تحقیق کرنے دے جائے، مینسڑی آف سوشل ویلفئیر کو بھی چاہئے کہ سوشل ورک کی ترقی کے لئے این جی اوز بنانے کے بجائے ایج ایس سی سے بات کرئے اور پاکستان بھر کے سکول کالجز اور جامعات میں سوشل ورک کے علوم کو عام کرئے اور سلیبس کا حصہ بنایا جائے
بصورت دیگر وقت مشکل کی طرف جا رہئے ہیں اور سماجی بہبود میں ڈیگری لینے والے طالب علم مارکیٹنگ، سیاست، اور چوکیداری کے سوائے کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہیں گے ابھی بھی وقت ہیں آپ اور ہم مل کر اس کر ترقی اور خوشحالی کے لئے میدان میں آئے نہیں تو کل آنے والے نسل نو ہمیں معاف نہیں کریں گے ۔۔۔


No comments:
Post a Comment