Efficient tag

#Sunopak

لبنان، جمہوریت اور پاکستانی معاشرہ| Lebanon elections 2018







تحریر: شریف ولی کھرمنگی بیجنگ۔


مشرق وسطیٰ کے ملک لبنان میں حالیہ الیکشن کے بعد میرے حلقہ احباب میں بہت زیادہ بحث دو حوالوں سے بہت زیادہ   ہورہی ہے۔ ایک گروہ جمہوریت کے نظام کو طاغوت اور ووٹ دینے کو ربوبیت سے انکار کرنا قراردینے والے سپر انقلابی نظریئے کے افراد وہاں کے شیعہ انقلابی تنظیم حزب اللہ کا فرانسیسی جمہوری نظام میں بھرپور حصہ لیکر جیتنے پر دلائل دے رہے ہیں کہ لبنان اور ہے پاکستان اور۔ یعنی لبنان میں جمہوریت جائز جبکہ پاکستان میں طاغوت اور انکار ربوبیت یعنی شرک۔ اتنا ہی نہیں بلکہ لبنان کے جمہوری نظام میں انقلابی تنظیم حزب اللہ اور اتحادیوں کی جیت پر یہی پاکستانی ماڈل کے انقلابی گروہ بہت زیادہ شاداں بھی ہیں اور اسکو ایرانی ساختہ نظام ولایت فقیہ کی جیت قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پاکستانی جمہوریت میں حصہ لینے والے گروہ [جن کو پاکستانی ساختہ انقلابی گروہ انکار ربوبیت کے مرتکب یعنی مشرک قرار دیتے ہیں ] لبنان انتخابات اور حزب اللہ کی روش کو اپنے نظریئے کی فتح قراردیتے ہوئے پاکستان میں جمہوری عمل کا حصہ بننے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ یہی مدلل اور حقائق کے مطابق سمجھ آنیوالی بات ہے کہ حزب اللہ کی کامیابی ایرانی انقلابی فارمولے کی یقینا جیت ہے لیکن وہ شروع دن سے اٗسی فرنچ جمہوری نظام کے اندر رہ کراور اس نظام میں بھرپور حصہ لیکر یہ جیت حاصل کرچکے۔
دوسرا گروہ اس وقت جلیلہ حیدر نامی خاتون کے ہزارہ برادری کی قتل عام کے خلاف احتجاج پر پاکستانی انقلابی عالم دین کے اعتراضات کے سامنے لبنانی عورتوں کی نیم عریاں حالت میں حزب اللہ کی سپورٹ سے موازنہ کررہے ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ صرف لباس اور ظاہری حلئے سے کوئی بھی کسی پر فتویٰ نہیں لگا سکتا چاہے وہ مسلمان عورت پاکستان میں ہو یا باہر۔ اور غیر مسلم ہو یا بالفرض غیر مسلم نظریات پر ہوں تو کسی مولوی کا اس پر انگلی اٹھانا ہی نہیں بنتا۔ چہ جائیکہ وہ کوئی جلیلہ حیدر کی طرح اپنے لوگوں پر مظالم کے خلاف اٹھے یا ویسے ہی ایسے حلئے میں رہنا چاہتی ہو۔
دوسری جانب لبنان کی آبادی کو جاننے والے بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ وہاں کی چالیس سے پچاس فیصد آبادی اہل کتاب عیسائی ہیں۔ جبکہ باقی سنی اور شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہیں۔ آبادی کی اسی تناسب کے مطابق وہاں کا جمہوری سسٹم طے کیا ہوا ہے۔ سب سے بڑی آبادی سے عیسائی صدر ہوگا، اہل سنت وزیر اعظم جبکہ شیعہ اسمبلی کا سپیکر۔ اور اس تقسیم کی وجہ سے وہاں سیاسی جماعتوں کی بجائے سیاسی اتحاد کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ جسکی مثال گزشتہ 2009 کی انتخابات اور حالیہ انتخابات سے واضح ہیں۔ گزشتہ انتخابات کے بعد رفیق حریری کا اتحاد وزیر اعظم بنانے میں کامیاب ہوا تھا جو کہ اس بار مشکل لگ رہا ہے۔ وزیر بنے گا سنی مسلمان ہی، لیکن یہ سنی اکثریت والا اتحاد طے کریگا کہ کونسے اتحاد میں زیادہ سنی سیٹیں ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ سنی وزیر اعظم حزب اللہ کا اتحاد بھی ہوسکتا ہے اور کسی مخالف اتحاد سے بھی۔ اسی طرح صدر سابق دور میں بھی عیسائی تھا جس کو حزب اللہ کی حمایت حاصل تھی، اور اس بار بھی واضح ہے کہ صدر حزب اللہ اتحاد سے ہی ہوگا کیونکہ حزب اللہ اتحاد میں شامل عیسائی زیادہ نشستیں حاصل کرچکے ہیں جبکہ مخالف اتحاد نے کم۔ بالکل اسی طرح سپیکر پہلے بھی شیعہ ہی تھا، اب بھی شیعہ ہی ہوگا، جس کیلئے حزب اللہ کا اتحاد تنظیم امل کے ساتھ ہے جن کے پاس تقریبا تمام شیعہ نشستیں موجود ہیں۔ اور دوسرے اتحاد کے پاس ایک بھی نہیں۔
اب لبنان کی آبادی کے تناسب اور انتخابی اتحادی صورتحال پاکستان سے یکسر مختلف ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں کے لوگوں کی وابستگیاں بھی ویسی نہیں جیسی ہمارے ملک میں ہے۔ نہ وہاں حزب اللہ کے حامی سارے شیعہ ہیں، نہ سعد الحریری کے سارے حامی سنی ہیں اور نہ عیسائی سیاسی جماعت میں سارے صرف عیسائی۔ اسلئے حزب اللہ کے حامی عیسائی اور سنی بھی ہیں جس کے شواہد موجود ہیں، اسی طرح دوسروں کے بھی،لھٰذا حزب اللہ کے جھنڈے کو کسی نیم برہنہ عورت کے ہاتھ میں ہونے سے اسے شیعہ کہنا حقائق کے منافی ہے۔
واضح رہے ماضی میں لبنان فرنچ کالونی رہ چکی ہے، جیسا آزادی سے قبل پاکستان و ہندوستان برطانوی کالونی تھی۔ مشرق وسطیٰ کی ماڈرن ترین ماحول لبنان میں آج سے تیس چالیس سال پہلے سے موجود تھا، اور مغربی لوگ چھٹیاں منانے بیروت آتے۔ شہید ڈاکٹر مصطفیٰ چمران تنظیم امل اور پھر حزب اللہ کی آبیاری کرنیوالوں میں سے تھے،انکی کتاب ''لبنان'' کا مطالعہ لبنان کے نو آبادیاتی نظام اور وہاں کے معاشرتی و معاشی اور جغرافیائی ماحول کو سمجھنے کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کتاب کے مطابق لبنانی شیعہ، خصوصا جنوبی لبنان کے شیعہ اکثریتی علاقے زیادہ تر غریب ہونے کی وجہ سے انکی عورتیں اسی کی دہائی میں بھی ہوٹلوں اور ہر عیاشی کے جگہوں پر کام کرنے پر مجبور تھیں۔ ہماری نسل کی پیدائش سے قبل بھی لبنان میں ماڈرن طور طریقے پاکستانیوں خصوصا گلگت بلتستان کے دیسی لبرلز کی سوچ سے بھی بہت آگے تھی۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی آبادی مخلوط ہونے کی بنا پر شرعی امور اور نظریات میں زبردستی ہرگز ممکن نہیں تھی، اسکے باوجود حزب اللہ لبنان نے سیاست، مقاومت اور معاشرت میں وہ کام کرلیا کہ اس ماڈرن لبنان کے شیعہ انقلابی بن گئے،۔ انہوں نے طاغوت قرار دیکر کنارہ کش ہونے کی بجائے ہر شعبے میں کھل کر حصہ لیا۔ وہ زمانہ بھی دیکھا جب شیعہ تنظیم اور حزب کے اختلافات بھی عروج پر رہے۔ لیکن اختلافات کو وہ رخ نہیں دیاگیا جیسا پاکستان میں دیا جاتا ہے۔ حزب اللہ بھرپور حصہ لیکر سیاست، معاشرت، مقاومت ہر ایک میں مثال بن گئی۔ اسرائیل کو2006 میں سبق سکھایا، اب میلی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ امریکا بہادر نے دہشت گرد جماعت قراردیا، اور اس دہشت گرد جماعت نے اپنے ملک کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ شام میں بھی امریکی اتحاد کو ناکوں چنے چبوا دیا۔نتیجتا لبنان کے شیعہ اور سنی ہی نہیں بلکہ عیسائی بھی اب حزب پر فخر کرتی ہے۔
حزب اللہ ایک دم سے اپنے تمام حامیوں اور سپورٹر خواتین کو یقینا چادر نہیں اوڑھا سکتی، نہ ہی وہ ان سب کو زبردستی مسلمان بناسکتی ہے، لیکن نظریاتی طور پر اپنے آپ کو سب کیلئے مقبول عام بنانا یقینا معجزے سے کم نہیں۔ جبکہ ہمارے لوگوں کے نظریات کا یہ حال ہے کہ دیسی لبرلز ترقی کا زینہ عورتوں کی مخلوط تقاریب اور نیم عریانی کو قرار دیتے نہیں تھکتے؟ کس طرح ہم اپنی عورتوں کا مقابلہ ایسے معاشرے کے عورتوں سے کرسکیں گے جو اب سے چالیس سال پہلے بے پردگی و عریانی کی دنگل میں تھے؟ لبنانی مغربی مادر پدر آزادی کا تجربہ کرکے نظریات کی طرف آرہے ہیں، جبکہ ہمارے دیسی لبرل اسی کی دہائی سے پہلے والی لبنانیوں کو اب فالو کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ لبنانی بہت اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ فرنچ کالونی میں ذلت و رسوائی تھی، استحصال تھا، جبر وظلم تھا، بے پردگی اور عریانیت تھی، مگر عزت و شرف اگر ہے تو اسلامی اصولوں کی پاسداری، خالص نظریات، اور شجاعت و مردانگی میں ہے جو حزب اللہ نے عملا کردکھایا۔ تبھی لبرل شیعہ و سنی ہی نہیں بلکہ غیر مسلم عیسائی بھی ان کے دلدادہ ہیں۔

لبنان ، جمہوریت اور پاکستانی معاشرہ ،لبنان حزب الله


لبنان ، جمہوریت اور پاکستانی معاشرہ 


مشرق وسطیٰ کے ملک لبنان میں حالیہ الیکشن کے بعد میرے حلقہ احباب میں بہت زیادہ بحث دو حوالوں سے بہت زیادہ ہورہی ہے۔
ایک گروہ جمہوریت کے نظام کو طاغوت اور ووٹ دینے کو ربوبیت سے انکار کرنا قراردینے والے سپر انقلابی نظریئے کے افراد وہاں کے شیعہ انقلابی تنظیم حزب اللہ کا فرانسیسی جمہوری نظام میں بھرپور حصہ لیکر جیتنے پر دلائل دے رہے ہیں کہ لبنان اور ہے پاکستان اور۔ یعنی لبنان میں جمہوریت جائز جبکہ پاکستان میں طاغوت اور انکار ربوبیت یعنی شرک۔ اتنا ہی نہیں بلکہ لبنان کے جمہوری نظام میں انقلابی تنظیم حزب اللہ اور اتحادیوں کی جیت پر یہی پاکستانی ماڈل کے انقلابی گروہ بہت زیادہ شاداں بھی ہیں اور اسکو ایرانی ساختہ نظام ولایت فقیہ کی جیت قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مقابلے میں پاکستانی جمہوریت میں حصہ لینے والے گروہ [جن کو پاکستانی ساختہ انقلابی گروہ انکار ربوبیت کے مرتکب یعنی مشرک قرار دیتے ہیں ] لبنان انتخابات اور حزب اللہ کی روش کو اپنے نظریئے کی فتح قراردیتے ہوئے پاکستان میں جمہوری عمل کا حصہ بننے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ یہی مدلل اور حقائق کے مطابق سمجھ آنیوالی بات ہے کہ حزب اللہ کی کامیابی ایرانی انقلابی فارمولے کی یقینا جیت ہے لیکن وہ شروع دن سے اٗسی فرنچ جمہوری نظام کے اندر رہ کراور اس نظام میں بھرپور حصہ لیکر یہ جیت حاصل کرچکے۔
دوسرا گروہ اس وقت جلیلہ حیدر نامی خاتون کے ہزارہ برادری کی قتل عام کے خلاف احتجاج پر پاکستانی انقلابی عالم دین کے اعتراضات کے سامنے لبنانی عورتوں کی نیم عریاں حالت میں حزب اللہ کی سپورٹ سے موازنہ کررہے ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ صرف لباس اور ظاہری حلئے سے کوئی بھی کسی پر فتویٰ نہیں لگا سکتا چاہے وہ مسلمان عورت پاکستان میں ہو یا باہر۔ اور غیر مسلم ہو یا بالفرض غیر مسلم نظریات پر ہوں تو کسی مولوی کا اس پر انگلی اٹھانا ہی نہیں بنتا۔ چہ جائیکہ وہ کوئی جلیلہ حیدر کی طرح اپنے لوگوں پر مظالم کے خلاف اٹھے یا ویسے ہی ایسے حلئے میں رہنا چاہتی ہو۔
دوسری جانب لبنان کی آبادی کو جاننے والے بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ وہاں کی چالیس سے پچاس فیصد آبادی اہل کتاب عیسائی ہیں۔ جبکہ باقی سنی اور شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہیں۔ آبادی کی اسی تناسب کے مطابق وہاں کا جمہوری سسٹم طے کیا ہوا ہے۔ سب سے بڑی آبادی سے عیسائی صدر ہوگا ، اہل سنت وزیر اعظم جبکہ شیعہ اسمبلی کا سپیکر۔ اور اس تقسیم کی وجہ سے وہاں سیاسی جماعتوں کی بجائے سیاسی اتحاد کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ جسکی مثال گزشتہ 2009 کی انتخابات اور حالیہ انتخابات سے واضح ہیں۔ گزشتہ انتخابات کے بعد رفیق حریری کا اتحاد وزیر اعظم بنانے میں کامیاب ہوا تھا جو کہ اس بار مشکل لگ رہا ہے۔ وزیر بنے گا سنی مسلمان ہی ، لیکن یہ سنی اکثریت والا اتحاد طے کریگا کہ کونسے اتحاد میں زیادہ سنی سیٹیں ہیں ۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ سنی وزیر اعظم حزب اللہ کا اتحاد بھی ہوسکتا ہے اور کسی مخالف اتحاد سے بھی۔ اسی طرح صدر سابق دور میں بھی عیسائی تھا جس کو حزب اللہ کی حمایت حاصل تھی، اور اس بار بھی واضح ہے کہ صدر حزب اللہ اتحاد سے ہی ہوگا کیونکہ حزب اللہ اتحاد میں شامل عیسائی زیادہ نشستیں حاصل کرچکے ہیں جبکہ مخالف اتحاد نے کم ۔ بالکل اسی طرح سپیکر پہلے بھی شیعہ ہی تھا، اب بھی شیعہ ہی ہوگا، جس کیلئے حزب اللہ کا اتحاد تنظیم امل کے ساتھ ہے جن کے پاس تقریبا تمام شیعہ نشستیں موجود ہیں۔ اور دوسرے اتحاد کے پاس ایک بھی نہیں۔
اب لبنان کی آبادی کے تناسب اور انتخابی اتحادی صورتحال پاکستان سے یکسر مختلف ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں کے لوگوں کی وابستگیاں بھی ویسی نہیں جیسی ہمارے ملک میں ہے۔ نہ وہاں حزب اللہ کے حامی سارے شیعہ ہیں، نہ سعد الحریری کے سارے حامی سنی ہیں اور نہ عیسائی سیاسی جماعت میں سارے صرف عیسائی۔ اسلئے حزب اللہ کے حامی عیسائی اور سنی بھی ہیں جس کے شواہد موجود ہیں، اسی طرح دوسروں کے بھی ،لھٰذا حزب اللہ کے جھنڈے کو کسی نیم برہنہ عورت کے ہاتھ میں ہونے سے اسے شیعہ کہنا حقائق کے منافی ہے۔
واضح رہے ماضی میں لبنان فرنچ کالونی رہ چکی ہے ، جیسا آزادی سے قبل پاکستان و ہندوستان برطانوی کالونی تھی۔ مشرق وسطیٰ کی ماڈرن ترین ماحول لبنان میں آج سے تیس چالیس سال پہلے سے موجود تھا، اور مغربی لوگ چھٹیاں منانے بیروت آتے۔ شہید ڈاکٹر مصطفیٰ چمران تنظیم امل اور پھر حزب اللہ کی آبیاری کرنیوالوں میں سے تھے،انکی کتاب "لبنان" کا مطالعہ لبنان کے نو آبادیاتی نظام اور وہاں کے معاشرتی و معاشی اور جغرافیائی ماحول کو سمجھنے کیلئے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کتاب کے مطابق لبنانی شیعہ، خصوصا جنوبی لبنان کے شیعہ اکثریتی علاقے زیادہ تر غریب ہونے کی وجہ سے انکی عورتیں اسی کی دہائی میں بھی ہوٹلوں اور ہر عیاشی کے جگہوں پر کام کرنے پر مجبور تھیں۔ ہماری نسل کی پیدائش سے قبل بھی لبنان میں ماڈرن طور طریقے پاکستانیوں خصوصا گلگت بلتستان کے دیسی لبرلز کی سوچ سے بھی بہت آگے تھی۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کی آبادی مخلوط ہونے کی بنا پر شرعی امور اور نظریات میں زبردستی ہرگز ممکن نہیں تھی، اسکے باوجود حزب اللہ لبنان نے سیاست، مقاومت اور معاشرت میں وہ کام کرلیا کہ اس ماڈرن لبنان کے شیعہ انقلابی بن گئے،۔ انہوں نے طاغوت قرار دیکر کنارہ کش ہونے کی بجائے ہر شعبے میں کھل کر حصہ لیا۔ وہ زمانہ بھی دیکھا جب شیعہ تنظیم اور حزب کے اختلافات بھی عروج پر رہے۔ لیکن اختلافات کو وہ رخ نہیں دیاگیا جیسا پاکستان میں دیا جاتا ہے۔ حزب اللہ بھرپور حصہ لیکر سیاست ، معاشرت، مقاومت ہر ایک میں مثال بن گئی۔ اسرائیل کو2006 میں سبق سکھایا، اب میلی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔ امریکا بہادر نے دہشت گرد جماعت قراردیا، اور اس دہشت گرد جماعت نے اپنے ملک کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ شام میں بھی امریکی اتحاد کو ناکوں چنے چبوا دیا۔نتیجتا لبنان کے شیعہ اور سنی ہی نہیں بلکہ عیسائی بھی اب حزب پر فخر کرتی ہے۔
حزب اللہ ایک دم سے اپنے تمام حامیوں اور سپورٹر خواتین کو یقینا چادر نہیں اوڑھا سکتی، نہ ہی وہ ان سب کو زبردستی مسلمان بناسکتی ہے، لیکن نظریاتی طور پر اپنے آپ کو سب کیلئے مقبول عام بنانا یقینا معجزے سے کم نہیں۔ جبکہ ہمارے لوگوں کے نظریات کا یہ حال ہے کہ دیسی لبرلز ترقی کا زینہ عورتوں کی مخلوط تقاریب اور نیم عریانی کو قرار دیتے نہیں تھکتے؟ کس طرح ہم اپنی عورتوں کا مقابلہ ایسے معاشرے کے عورتوں سے کرسکیں گے جو اب سے چالیس سال پہلے بے پردگی و عریانی کی دنگل میں تھے؟ لبنانی مغربی مادر پدر آزادی کا تجربہ کرکے نظریات کی طرف آرہے ہیں، جبکہ ہمارے دیسی لبرل اسی کی دہائی سے پہلے والی لبنانیوں کو اب فالو کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ لبنانی بہت اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ فرنچ کالونی میں ذلت و رسوائی تھی، استحصال تھا، جبر وظلم تھا، بے پردگی اور عریانیت تھی، مگر عزت و شرف اگر ہے تو اسلامی اصولوں کی پاسداری، خالص نظریات، اور شجاعت و مردانگی میں ہے جو حزب اللہ نے عملا کردکھایا۔ تبھی لبرل شیعہ و سنی ہی نہیں بلکہ غیر مسلم عیسائی بھی ان کے دلدادہ ہیں۔
تحریر : شریف ولی کھرمنگی۔ بیجنگ


پانامہ لیکس کیس کے فیصلے پر عملدرآمد بنچ کی سربراہی کرنیوالے جسٹس اعجاز افضل ریٹائر،جانئے ان کے حالا ت زندگی کے بارے میں


اسلام آباد(ویب ڈیسک)جسٹس اعجاز افضل خان آج 7 مئی کو بطور جج سپریم کورٹ اپنے عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے جسٹس اعجاز افضل خان کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس آج منعقد ہو گا جس سے چیف جسٹس ، اٹارنی جنرل ، وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل اور صدر سپریم کوٹ بار ایسوسی ایشن خطاب کریں گے، جسٹس اعجاز افضل خان مئی 8 1953 کو مانشہرہ میں پیدا ہوئے اور ستمبر 2000 کو پشاور ہائی کورٹ کے ایڈیشنل جج مقر ر ہوئے، نو سال بطور جج خدمات سر انجام دینے کے بعد 20 اکتوبر 2009 کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے اور 17 نومبر 2011 کو سپریم کورٹ لائے گئے، جسٹس اعجاز افضل خان نے پانامہ لیکس سے متعلق 20 اپیل کو فیصلے میں اکثریتی رائے دی جس کے تحت معمالے کو تفتیش کیلئے جے آئی ٹی مقرر ہوئی جبکہ فاضل جج نے پانامہ لیکس کیس کے فیصلے پر عملدرآمد بنچ کی سربراہی کی

سرفہ رنگاہ تحریر: شریف ولی کھرمنگی۔ بیجنگ




ہر چند کہ راقم بلتی زبان و ادب کے رموز اورادبی و علمی اصطلاحات سے تقریبا نا آشنا ہوں۔ یوں سمجھ لیجیئے کہ صرف معاشرے میں رائج الفاظ اور عام بول چال ہی جانتا ہوں۔ ایک مرکب لفظ‘‘سرفہ رنگہ’’پر غور کیا گیا۔ پہلا لفظ سرفہ یعنی تازہ، نیا، جدید، جبکہ رنگاہ ایسا خطہ ارضی یا زمین کا ایسا ٹکڑا جو باقاعدہ ذراعت وغیرہ کیلئے استعمال نہ ہو، بلکہ قرب و جوار کی آبادیوں کے لئے بطور چراگاہ استعمال ہونے والی زمین۔ اس مرکب لفظ کے معنی و مفہوم جو اخذ کئے جا سکتے ہیں وہ ہیں ایسی تازہ زمین جو کہ کاشت کاری کیلئے استعمال نہ ہو۔ رنگاہ، سنیو رنگا، ہلما رنگاہ اور سرفہ رنگاہ وغیرہ کے علاقوں سے بلتستان کے عوام واقف ہیں۔ سرفہ کو ہم ماڈرن یا جدید کے معنی میں لیں تو ہمارے ذہنوں میں زمانے کے نت نئے طور طریقوں، نت نئی ٹیکنالوجی، نئی سیاسی، سماجی اور اقتصادی اصطلاحات اور پالیسیاں وغیرہ بھی آجاتے ہیں۔ انسان اپنی ضروریات کے مطابق رنگاہ یعنی غیر آباد علاقے کو استعمال کرتا ہے۔ جس کیلئے سرفہ یعنی تازہ خیالات اور مشورے کار آمد ہوتے ہیں۔ نئی اصطلاحات اور پالیسیاں ضروری نہیں کہ کسی پرانے اصطلاح یا پالیسی کے متبادل کے طور پر بنائی جائے، بلکہ یہ نئی تخلیق بھی ہوسکتی ہے۔ کیونکہ انسان کو اللہ نے سوچنے کی صلاحیت دی ہے جس سے نت نئے ایجادات ہوتے آج کی دنیا کو اکیسویں صدی میں ھم گلوبل ولیج کہتیہیں۔ بقولِ شاعر،
جہانِ تازہ کے افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
یہی وجہ ہے دنیا آج تحقیق کے شعبے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اورمحققین کی ہی محنت کا ثمرہے جو آج نت نئی ٹیکنالوجی، ایجادات ہماری زندگیوں کو پر آسائش بنا رہی ہیں۔ سکردو کے مضافات میں دریائے سندھ کے اس پار سرفہ رنگاہ سے اب ایک دنیا واقف ہوچکی ہے۔ اس کی وجوہات سرفہ رنگاہ جیب ریلی، سرفہ رنگاہ ہائیکنگ اور سرفہ رنگاہ کی جانب سکردو شہر کی وسعت کیلئے ہونے والے اقدامات ہیں۔
ایک زمانہ تھا کہ برطانیہ عظمی کی سلطنت دنیا بھر میں پھیلی ہوئی تھی، تقریبا پوری دنیا میں اسکا سکہ رائج تھا۔ لوگوں کیخیالات بدلے، زمانہ بدلا، ضروریات بدلیں، نئے تقاضے سامنے آئے۔ آج ڈالر پوری دنیا پر راج کررہا ہے۔ اور سپر پاور امریکہ دنیا پر دھاک بٹھاتا نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ کی دنیا پر معاشی و سیاسی اجارہ داری کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟ قرائن یہی بتلاتے ہیں کہ جدت پسندی اور تازہ خیالات کو عملی جامہ پہنانے میں مہارت ایسا ہتھیار ہے جو امریکہ کو سپر پاور بنا گیا۔ دنیا کو اس بات سے آگاہ ہونا چاہئے کہ امریکہ کی اجارہ داری اس وقت تک قائم رہے گہ جب تک اقوام عالم میں اس کے خیالات و افکار کے مقابل کوئی تازہ تر اور جدید تر خیال سامنے نہیں آجاتا۔
تحقیق کے طالبعلم ہونے کے ناتے مختلف کتب اور دستاویز سے واسطہ پڑتا ہے اور ماضی اور حال کی کئی حقیقتیں اور ایجادات سے واقفیت ہو جاتی ہے۔ میرا قلیل مطالعہ باور کراتا ہے کہ دنیا کی معاشی بازار میں تیل کو اولیت حاصل ہونے سے قبل لوگوں کا انداز فکر ویسا نہیں تھا جیسا عہد رفتہ میں ہے۔ عرب ممالک میں قدامت پرستی عروج پر تھی، لارنس آف عربیہ نامی مووی دیکھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ خطہ عرب کے نقشے کو اس عہد کی طاقتوں نے نئی شکل دی۔ تب سے زمانہ جدید سے ما بعد جدیدیت کا روپ دھار گیا۔ آج بھی دنیا کی طاقتیں خاص کر امریکہ بہادرعرب سرزمین کو اپنے بہترین مفاد میں استعمال کررہا ہے۔
پاکستان کے اولین وزیر اعظم اور مایہ ناز لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کرایا گیا۔ اس سے قبل سعودی عرب کے جدید تفکر کے حامل شاہ فیصل کو بھی انجام تک پہنچایا جا چکا تھا۔ بھٹو تازہ خیالات کے مالک تھے جو سامراجی قوتوں کے جبر کو قبول کرنے کو اپنی اور قوم کی توہین سمجھتے تھے۔بھٹو کو منظر سے ہٹانے کے بعد پاکستان میں امریکہ کا عمل دخل بڑھ گیا۔ امریکی ساختہ مرد مومن, مرد حق ضیاء الحق کے ذریعے مجاہدین کی تربیت کروائی، ضیاء کے اندھیرے ملک کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ مخصوص سکول آف تھاٹ کو پروان چڑھایا گیا۔ حال ہی میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے اعتراف کے بعد اب اس میں شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ امریکی ساختہ مرد مومن کے مجاہدین کے نعرے با قاعدہ عقیدے بن گئے۔ اس وقت بوئی گئی زہریلی فصل کو پاکستان سمیت خطے کے ممالک اب تک کاٹ رہے ہیں۔ امریکہ بہادر کی ضروریات بدلیں، سو پالیسی بھی بدلی۔ نتیجتا نئی تھیوری سامنے آئی۔اب روشن خیال اعتدال پسندی کا ڈھونگ رچایا گیا اور یہ بھی ایک اور آمر مطلق کے ذریعے۔ گزشتہ مرد مومن سے تربیت دلانے گئے مجاہدین کو کچلنے کیلئے روشن خیال بہادر کو خوب استعمال کیا گیا جس کے نتائج سے پوری دنیا واقف ہے۔ افغانستان میں سترہ سالہ جنگ میں ناکامی کے بعد گزشتہ دنوں قندوز میں ڈیڑھ سو معصوموں پر بمباری نے ثابت کیا کہ اس اعتدال پسند روشن خیال سوچ کے پیچھے شہہ دماغوں کو اپنی دھاک بٹھانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے سے کوئی روکنے والا نہیں۔
گزشتہ دنوں مقامی اخباروں میں خبر شائع ہوئی ہے کہ بلتستان کے مخصوص علاقے میں مخصوص بیرونی طاقت کو پانچ سو کنال کی اراضی چاہئے۔ صوبائی حکومت خطے کی ہزاروں بلکہ لاکھوں ایکڑ زمین خالصہ سرکار کے نام پر ہتھیانے کے لئے پہلے سے ہی بے تاب ہے۔ خالصہ سرکار کے کالے اصول کے نفاذ میں ہنوز عوامی طاقت رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ سکردو چھومک میں سولہ روزہ عوامی نگہبانی کے نتیجے میں انتظامیہ قبضے میں فی الحال ناکام ہے۔ اب خبریں آ رہی ہیں کہ لینڈ ریفارمز کے نام پر گلگت بلتستان میں جہاں جہاں سرفہ رنگاہ یعنی غیر آباد علاقے ہیں ان کو زیر استعمال لانے کیلئے حکومت نئی پالیسی بنا رہی ہے۔ عین ممکن ہے کہ حکومتی پالیسی کی آڑ میں مخصوص ملک کے لئے پانچ سو کنال عوام کی ملکیتی زمین مفت دینے کی بھی حکمت عملی بن رہی ہو۔ عوامی سطح پر ایسی پالیسی کی شدید مخالفت کے آثار نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب اسی علاقے کے نوجوانوں کا ایک طبقہ روشن خیالی کے نعروں اور سوچ سے مرعوب و متاثر دکھائی دیتا ہے۔ مقامی طور پر اس سوچ کو ہوا دینے کی کچھ مثالیں ثقافتی پروگرامز اور خواتین کے حقوق کیلئے سرگرم سماجی انسان دوست گروہوں کی سرگرمیاں ہیں۔ اتفاقا ثقافت کے نام پر کی جانیوالی سرگرمیوں کو بھی ستر کی دہائی کے بعد سے باقاعدہ ایک نئی فکر کے ساتھ علاقے سے ختم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ دنیا جدیدیت کے جتنے زینے طے کر لے مگر یہ بات اٹل ہے کہ کوئی شریف انسان قدیم جاہلیت کے زمانے کے قبیح کاموں کو اچھا نہیں سمجھتا۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں اب کچھ لا ابالے منچلے ڈانس پارٹیاں منعقد رہے ہیں۔ یعنی ان کے حصے میں جدید تعلیم اور طرز فکر کی بجائے ایسی جدید مگر قبیح حرکتیں آئیں۔
گلگت بلتستان کے اہل فکر اور ہوش مند افراد کی یہ اجتماعی ذمہ داری بنتی ہے کہ خطے کو بیرونی عناصر کے ثقافتی یلغار سے بچایا جائے. مروت اور ادب کی آمیزش میں گوندی ہوئی ہماری تہذیب کو کسی اور تمدن سے ملانے کی چنداں ضرورت نہیں. ساتھ ساتھ اہل نظر کایہ بھی قومی فریضہ ہے کہ بیرونی طاقتوں کی اچانک گلگت بلتستان میں بڑھتی دلچسپی کا ادراک کیا جائے. یہاں کی جدی پشتی عوامی ملکیتی زمینوں کو خالصے والی سرکار کی مشکوک نظروں سے بچایا جائے۔ یہ زمینیں نہ سرکار کی ہیں اور نہ کسی بیرونی شاہ، شیخ یا مسٹر کو تحفے میں دینے کے واسطے پڑی ہیں۔ یہ زمین ہماری ہے۔ہم اس زمین سے ہیں۔سارفہ رنگاہ ہمارا ہے۔نہ سرکار کا ہے اور نہ کسی بیرونی طاقت کی ملکیت ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار خواجہ سرا قومی اسمبلی انتخاب میں حصہ لیں گے



اسلام آباد(ویب ڈیسک)پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار خواجہ سرا قومی اسمبلی انتخاب میں حصہ لیں گے۔ تفصیلات کے مطابق اسلامی جمہوریہ

 پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار خؤاجہ سراء قومی اسمبلی کا اتنخاب لڑیں گی۔ خواجہ سراؤں نے متفقہ طاور پر اوکاڑہ سے خؤاجہ سراء نایاب علی 

الیکشن قومی اسمبلی لڑیں گی ۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر پہلے ہی خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ بننے اور جائیداد میں حصہ کا اہل قرار 

دیا ہے۔

Sunopak

PropellerAds