روزنامہ کے۔ٹو، روزنامہ بادشمال، روزنامہ اوصاف، روزنامہ ترجمان اور ہفت روزہ ہمالیہ ٹائمز
دیامر گلگت بلتستان کا ایک اہم ضلع ہے۔ کہتے ہیں Deo Mir نانگا پربت کا پرانا نام ہے۔چونکہ یہ ضلع نانگا پربت کے دامن میں واقع ہے اس لئے اس کا نام دیامر پڑا۔یہ گلگت بلتستان کا گیٹ وے ہے۔یہاں کے مقامی لوگوں کی اکثریت محب وطن، کٹر مذہبی اور سادہ ہیں۔بدقسمتی سے یہ علاقہ گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع کی نسبت پسماندہ ہے۔اگرچہ روڈ اور شاہراہ قراقرم سب سے پہلے یہیں سے گزرا اور اس حساب سے اس ضلع کو گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع سے زیادہ ترقی یافتہ ہوناچاہیے تھا مگر یہاں کی عوام خاص کر علما اور قبائلی رہنماؤں کی قدامت پسندی نے اس خوبصورت اور قدرتی وسائل سے مالا مال علاقے کی مجموعی نشوونما کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔تعلیمی پسماندگی نے جلتی پہ تیل پہ کام کیا۔ گلگت بلتستان میں یہ واحد ضلع ہے جہاں صرف ایک ہائی اسکول اور لڑکیوں کے لئے صرف تین مڈل اسکولز ہیں۔جبکہ اسکولوں میں انرولمنٹ کی شرح بھی دوسرے اضلاع کی نسبت بہت کم ہے۔حکومت کو اس سلسلے میں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
دیامر جنوب مغرب کی طرف سے خیبر پختونخواہ کے ضلع کوہستان سے ملتا ہے۔بدقسمتی سے ضلع کوہستان بھی خیبرپختونخواہ کا ایک پسماندہ خطہ ہے۔شرح تعلیم میں کمی کی وجہ سے وہاں دیگر برایؤں کے ساتھ ساتھ ذاتی دشمنیاں کئی نسلوں تک جاری رہتی ہے۔ خصوصا قتل جیسے معاملات میں معافی کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔چونکہ دیامر کوہستان کا ہمسایہ ہے اور تقسیم ہند کے بعد کوہستان سمیت خیبرپختونخواہ بھر سے لوگ یہاں کاروبار کے سلسلے میں منتقل ہوئے اور اکثر یت نے یہاں مستقل سکونت اختیار کی ہے۔جبکہ واقفان حال کے مطابق ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت خیبر پختونخواہ کے لوگوں کو نہ صرف دیامر میں بلکہ گلگت بلتستان کے دیگر اضلاع خاص کر گلگت، استور،اور سکردو میں بسایا گیا ہے مگر دیامر پر اس کا اثر زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان بھر میں دیامر سب سے حساس، پر خطر اور دہشت گردی کے لئے زرخیز سرزمین ثابت ہوئی ہے۔یہ بات ذہن نشین رہے کہ دہشت گردی کے ہر واقعے کے بعد یہاں کے مقامی لوگ اس کے خلاف احتجاج بھی کرتے ہیں مگریہاں کے مقامی باسی اپنی صفوں میں چھپے ان دہشتگردوں کی نشاندہی کرنے، ان کے خلاف کارروائی میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون کرنے میں یکسر ناکام نظر آتے ہیں۔جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو ایک مخصوص لابی اسے علاقائیت یا مسلکی رنگ دے کر مجرموں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور ان کی یہ حکمت عملی اب تک کارگر ثابت ہوئی ہے۔
حال ہی میں منگل اور بدھ کی درمیانی شب چلاس کے قدیمی محلے رونئی میں سی ٹی ڈی کی ایک چھاپہ مار ٹیم نے خفیہ اطلاع پر چھاپہ مارا۔پولیس کے مطابق دہشت گردوں نے سی ٹی ڈی اہلکاروں پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی جس کے نتیجے میں ایک سب انسپکٹر سمیت پانچ اہلکار موقع پر ہی شہید ہوئے جبکہ دو شہری جس میں سے ایک نجی یونیورسٹی کا طالبعلم تھا بھی جاں بحق ہوئے۔
جبکہ دوسری طرف علاقہ مکینوں نے جاں بحق ہونے والے دونوں افراد کی نعش روڈپر رکھ کر احتجاج کیا۔ ان کے مطابق یہ کارروائی مشکوک ہے اور ضلع دیامر کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔اخبارات کے مطابق سی ٹی ڈی کے مخبر نے اپنی ذاتی دشمنی کا بدلہ لینے کے لئے پولیس کو گمراہ کیااور اس طرح یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ اس خبر نے سی ٹی ڈی کی اس پوری کارروائی کو مشکوک بنا دیا ہے مگر کچھ بنیادی سوالوں کا جواب ملنا باقی ہے کہ اگر متاثرہ گھر میں غیر قانونی اسلحہ یا دہشتگرد موجود نہیں تھے تو پولیس پارٹی پر فائرنگ کس نے کی؟ کیا سی ٹی ڈی کی پیشہ ورانہ تربیت میں اتنی خرابی ہے کہ وہ کسی ایک دہشتگرد کو گرفتار کرنے، زخمی کرنے یا مارنے میں ناکام رہے؟؟کہیں ایسا تو نہیں کہ شدت پسند عناصر نے سی ٹی ڈی میں نفوذ کیا ہو اور دونوں طرف مخبری کی گئی ہو؟؟یا یہ ایک نئے کھیل کا آغاز ہے جس میں اس علاقے کے لوگوں کو مشتعل کرکے طاقتور ادارے اپنے من پسند نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔بہرحال اس واقعے کی شفاف تحقیقات نگراں حکومت کے لئے ایک چیلنج ہے۔مگر تحقیقات کا ہونا نہایت ضروری ہے کیونکہ ذاتی دشمنی نکالنے کے لئے ڈپارٹمنٹ کو استعمال کرنے کی روش انتہائی خطرناک اور معاشرہ خصوصا عام لوگوں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
قارئین کی خدمت میں عرض کرتا چلوں کہ یہ نہ تو پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری ہوگا۔اگر ہم صرف 2010سے اب تک کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو امن و محبت کی سر زمین گلگت بلتستان کو اس ضلع نے بڑے بڑے صدمے پہنچائے ہیں اور دنیا بھر میں گلگت بلتستان کی شہرت،بھائی چارگی اور امن پسندی پر کاری ضرب لگائی ہیں۔بلا شبہ ان واقعات میں دیامر کے غیوراور محب وطن شہری ملوث نہیں ہیں مگر اپنے وطن، مٹی،اور لوگوں سے غداری کرنے والے لوگ بھی کسی نہ کسی شکل میں ہر دور میں موجود رہے ہیں چاہے مذہب کے نام پر ہو یا مسلک کے، زبان کے نام پر ہویا علاقے کے نام پر۔اپریل 2012میں چلاس کے ہی مقام گونر فارم میں شدت پسندوں نے گلگت اور سکردو جانے والی 6 بسوں کو روکا اور آگ لگادی۔9مسافروں کو کارڈ چیک کرکے قتل کیا گیا۔دیامر پولیس، دیامر کے علما و قائدین نے باقی مسافروں کو بمشکل ان دہشتگردوں سے بچایا اور سیکیورٹی حصار میں گلگت پہنچایا۔اس واقعے میں 9 مسافر شہید ہوئے جبکہ مالی نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے اس واقعے کوبھرپور کوریج دی۔ اسی سال فروری میں کوہستان میں بھی اسی قسم کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں 20 سے زائد مسافر شہید ہوئے تھے۔
2013میں 22 اور23 جون کی درمیانی شب کو نانگا پربت کے بیس کیمپ میں موجود غیر ملکی کوہ پیماؤں پر حملہ ہوا جس میں ایک پاکستانی سمیت 9 غیر ملکی کوہ پیما ہلاک ہوئے۔اس واقعے نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کی اور گلگت بلتستان کی شہرت اور ٹورزم انڈسٹری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور ملک عزیز پاکستان کی بھی بدنامی ہوئی۔دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اور بی بی سی نے اس واقعے کو یوں رپورٹ کیا:
Officials in the Diamir district of Gilgit-Baltistan say the area where the gunmen struck is extremely remote and there are no roads and no means of transportation other than mules.They say the attackers must have been well trained and well acclimatised. A lot of planning must have gone into conducting this operation. The area is a vast mountain desert, having approaches from three sides, each requiring 20 hours of walking; in practice two days of trekking. Sunni Muslim hard-line groups have in the past carried out severalattacks in this predominantly Shia region, mostly along the highway by targeting passenger buses, but this is the first time they have trekked deep into a remote area to kill foreigners. The incident is likely to hurt the finances of a cash-strapped Gilgit-Baltistan government which depends heavily on revenue raised from mountain expeditions that arrive each summer from around the world. It is also likely to hit tour operators, guides and local small businesses linked to tourism.
2013 میں ہی اگست کے پہلے ہفتے میں دیامر میں دہشتگردوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ان افسران کو نشانہ بنایا جو اسی سال جون میں کوہ پیماؤں پر ہونے والے افسوسناک حملے کی تفتیش کررہے تھے۔شہید ہونے والے افسران میں پاک فوج کے ایک کرنل، ایک کیپٹن اور ایک ایس ایس پی شامل تھے۔یہ حملہ بھی گلگت بلتستان کی تاریخ میں ایک سیاہ باب ہے۔
2018 میں 3 اگست کی رات کو شدت پسندوں نے 12 گرلز اسکولوں کو بموں سے اڑا دیا۔ دو دن بعد 5 اگست کی شب کوعلم و روشنی کے دشمن ابوجہل اور ظلمت کی اولادوں نے ایک اور اسکول کو نذرآتش کردیا۔اطلاعات کے مطابق کچھ دنوں بعد 11 اگست کوڈپٹی کمشنر دیامر کی رہائش گاہ پر حملہ کیا گیا تاہم ڈپٹی کمشنر اس حملے میں محفوظ رہے۔
لیکن ان تمام واقعات میں نہ تو کسی اہم مجرم کی گرفتاری عمل میں آئی نہ ہی کسی کو سزا ہوئی۔البتہ پولیس نے غذر میں ایک اسکول پرحملے کے ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا اوران پرپرنس کریم آغاخان اور گورنر پیر کرم علی شاہ پر حملے کی کوشش کرنے جیسے سنگین الزامات عائد کئے۔ 26 اگست کی Dawn کی رپورٹ کے مطابق:
According to Deputy Inspector General Gohar Nafees, all the arrested suspects are students of a local seminary run by a local named Inayatullah.He said that police had also recovered explosive material and petrol during their raid on the seminary late on Saturday night, adding that the plot to target the school and college was hatched at the seminary.He claimed that the suspects were planning to blow up the school - which is part of the Agha Khan Schools network - using bombs on Saturday night. Ahsanullah who was heading the 'terrorist group' has been arrested, the DIG said.DIG Nafees said the 'terrorists' had confessed to their involvement in blowing up several schools in Diamer in 2016-17.He added that the arrested suspects had also confessed to their involvement in failed attempts to target Prince Kareem Agha Khan and former Governor Pir Karam Ali Shah in a bomb attack.
لیکن اس کے بعد ان کیسز پہ کیا پیشرفت ہوئی؟ کیا پولیس ان الزامات کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوئی اور ملزمان کو سزائیں ہوئی؟ کیا یہ تمام سانحات ضلع دیامر کی عوام کے ساتھ سازش ہیں؟ یا دیامر کی عوام میں ہی چھپے دہشتگرد اس طرح کی سازشی تھیوریز کی آڑ لینے کی کوشش کرتے ہیں؟اس مسئلے کا مستقل حل اب وقت کی ضرورت ہے۔
میری دانست میں دیامر کی عوام کو اب فیصلہ کرنا چاہیے کہ وہ تمام مصلحتوں سے بالا تر ہوکر ان دہشتگردوں کو قانون کی گرفت میں لانے میں اپنا کردار ادا کریں۔تاکہ وہ بدنامی کے مذید داغ سے بچ سکیں۔اب مقدمہ ان کی کورٹ میں ہے کہ اپنے اردگرد چھپے شدت پسندوں سے اپنے علاقے کو بچاتے ہیں یا ان کو بچانے کے لئے حسب روایت مصلحتوں سے کام لے کران کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔مجھے امید ہے دیامر کے غیور اور محب وطن عوام پہلے آپشن کو استعمال کریں گے۔۔
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
سید جعفرشاہ کاظمی
