Efficient tag

#Sunopak

گلگت تاریخ کے آئینے میں | تحریر آصف علی تیمور (جامعہ کراچی پاکستان )




قدیم  تواریخ کا مطالعہ گلگت بلتستان میں زمانہ قبل از مسیح سے آزاد اور خود مختار حکومتوں کے وجود کا پتا چلتا ہے ۔ماضی بعید میں قائم ہونے والی حکومتوں کے حدود وقتاً فوقتاً پھلتی اور سکڑ تی رہی ہیں ۔گلگت بلتستان میں 700ء میں باقدعدہ حکومتوں کے قیام کا تذکرہ ملتا ہے اوراگوتھم اس دورمیں یہاں حکمران تھاپھر مختلف خاندانوں کی حکومتیں قائم رہیں ۔گلگت میں لاہور کی سکھ حکومت کی فوجیں ایک مقامی راجہ کی مدد کے بہانے داخل ہوئی جس کے خلاف بھرپور مذمت کی گئ اور اسی دوران مارچ 1846ء کو گلگت میں سکھوں انگرزوں اور اس کے بعد ڈوگروں کا قبضہ ہوا جس کے خلاف راجہ گوہر امان کی قیادت میں لوگ اٹھ کھڑے ہوئے 1885ء میں گلگت میں سلطنت راجہ گوہر آمان نے سمبھالی 1860 ء میں دوبارہ ڈوگروں کی حکومت قایم ہوئی 1936ء میں انگرزوں نے گلگت کے مہا راجہ سے کشمیر پٹے پر حاصل کر لیا ۔بلا آخر یکم نومبر 1947ء کو منظم انداز میں بغاوت کی گئی اور گورنر گھنسارا سنگ کو گرفتار کر کے  گلگت کو آزاد کر لیا گیا 
گلگت کی آزاد اسلامی ریاست کا اعلان کردیا گیا راجہ شاہ رئیس خان کو نوزییدہ اسلامی ریاست کا صدر چن لیا گیا کرنل مرزاحسن خان کو مسلح افواج کا سرابرہ مقرر کیا گیا  ۔16 نومبر 1947ء کو ریاست گلگت نے پاکستان سے علاقے کا انتظام و انصرام سمبھلنے کی  درخواست کی جس کے جواب میں پاکستان کے پہلے پولیٹیکل ایجنٹ سردار محمّد عالَم خان نے گلگت آکرانتظام و انصرام سمبھلا  حکومت پاکستان کی طرف سے 1956 ء میں دیہات سد ھارو کے نام سے ترقیاتی پروگرام کا آغاز ہوا اسی طرح 1961 ء میں نادرن ایریاز میں بنیادی جمہوریت کی بنیاد ڈالی گئی ۔1969 میں صدر یحی خان نے نادرن ایریاز ایڈوزری کونسل کے نام سے ایک مشاورتی کونسل تشکیل دی۔ 1971ء میں ایف سی آر کا خاتمہ ہوا ہے۔1972ء میں ضلع دیامر کا قیام عمل میں لایا گیا ۔1974ء کو ضلع غذر کا اعلان کر دیا گیا سیاسی  تحرک کا آغاز شروع ہوا تو 1975 ء میں ناردن ایریاز میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد ڈالی گئی 1977ء میں نادرن ایریاز میں پہلا مارشل اللہنافذ ہوا اس کے بعد پہلے مرشاللہ  کے ختمے کے بعد 1979ء میں لوکل گورنمنٹ آڈر نافذ کیا گیا سیاسی شعور اجاگر ہونے کی وجہ سے 1979ء میں نادرن ایریاز میں بلغ راے دہی کی بنیاد پر عام انتخبات منعقد ہوے ۔1998 ء میں نادران  ایریاز کو قانون ساز کونسل کا درجہ دیا گیا ۔1998 ء میں حاجی فدا محمد ناشاد پہلا ڈپٹی چیف ایگزیکٹو منتخب ہوا اور 2010 میں نادرن ایریاز قانون ساز کونسل سے گلگت بلتستان اسمبلی کا درجہ ملا سید مہدی شاہ پہلے وزیر اعلی اور ڈاکٹر شمع خالد پہلی گورنر منتخب ہوئی گلگت کوہ ہمالیہ، کوہ ہند د کش  اور کوہ قراقرام کے درمیان واقع ہے ۔
ماضی میں گلگت کے نام سارگن گیلت ،گری گرت، کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔گلگت کے شما ل میں ہنزہ اور نگر کی وادیاں ہیں شما ل مغرب میں اشکومن پونیال یاسین اور غذر کا علاقہ ہے ۔مغرب میں داریل تانگیر ہیں جنوب مغرب میں چلاس جنوب مشرقی میں وادی استور ہیں ۔1973 میں ضلع دیامر کا قیام عمل میں لایا گیا ننگاپربت دیامر کی بلند چوٹی ہیں یہاں شینا پشتو بولی جاتی ہے اور اس کا صدر مقام چلاس ہیں ۔سید اکبر شاہ اور شاہ ولی کے زریعے گلگت میں آمد اسلام ہوا ۔۔شینا کو پہلی بار امیر سنگھ نے 1883 میں لکھا اور ٹھکر سنگھ 1915 میں اس طرح ٹی گرم نے  شینا زباں کی پہلی گرایمر تحریر کی شینا زبان کی چار شاخیں ہیں گلگتی، استوری، چلاسی اور بروسکت 1947 سے 2005 تک گلگت میں 80 پرائمری اسکول 36 مڈل اسکول 33 ہائی  اسکول اور تین انٹر کالجز اور ایک ڈگری کالج تھی۔  گلگت انٹر کالج کا قیام 1970 میں ڈگری کالج کا قیام 1975 میں گرلزانٹر  کالج کا قیام 1974 میں اور علامہ اقبال اوپن ینورسٹی نے اپنا سلسلہ 1987 میں شروع کیا ۔2002 میں گلگت میں قراقرام انٹرنشنل ینورسٹی کا قیام عمل میں لایا گیا یہ پاکستان کی پہلی انٹرنیشنل ینورسٹی اور وفاق کی چوتھی اور گلگت بلتستان کی پہلی  اور پاکستان کی سترییویں ینورسٹئ ہونے کا اعزاز رکھتی ہے ۔گلگت کے مشور شاہراہ مندرجہ ذیل ہیں 
 شاہراہ قراقرام ، شاہراہ ریشم شاہراہ غذر اور شاہراہ استور ہیں سر زمین گلگت میں بلند و بالا پہادی سلسلے ہیں ننگا پربت 8125 میٹر دستگل سسر 7885 میٹر ننگا بربت شمالی 7816 میٹر بتورا 7785 میٹر بلند ہیں ۔گلگت میں کئی اہم گلشیر موجود ہیں  جیسے مکن گلشیر، ماند گلشیر ،سیار گلشیر، الترو گلشیر ،ہوپسر ،گلشیر مناپن گلشیر اور ہسپر گلشیر کے علاوہ دیگر کئی گلشیرز موجود ہیں ۔ سارگن گلت میں 16 مشہور و معروف جھیل پایے جاتے ہیں کچھ اہم جھیل نلتر جھیل،  راما جھیل استور، پھنڈرجھیل 
چیزو کسا جھیل، رکون جھیل تم سر جھیل ،اٹ جھیل، رش جھیل اور دیگر کئی چھوٹے بڑے جھیل موجود ہیں جو اس جنت نظیر وادی کی خوبصورتی کو چار چاند لگاتے ہیں ۔جنت نظیر وادی جنگلی پرندوں کی خوبصورت آوازں  سے ایک سحر انگیز ادا پیش کرتی ہیں یہاں کے پرندوں میں بگلا، گدھ، جنگلی کبوتر، فاختہ، الو ،ہدہد  کوا ،چکور، رام  چکور،سفید چڑیا، عقاب اور دیگر پرندوں پر مشتمل ہیں ۔گلگت کو چین کے صوبہ سنکیانگ  سے ملانے والے دروں میں  درہ شاقزم،  درہ قراقرام  درہ قراتیغ اور درہ خنجراب ہیں ۔سر زمیں گلگت تاریخی مقامات کے لیے بھی معروف ہیں اس کے تاریخی مقامات میں یادگار قلعہ گلگت،  بت نوپورہ گلگت،  گورا قبرستان اور مینار گلگت یہ وہ تاریخی مقامات ہیں جو گلگت کے ماضی اور حال کے چسم دید گواہ ہیں ۔۔
بقول شاعر 
شلدٹی وطن پاکستان ہنی مئی 
غذر دیامر بلتستان ہنی مئی


موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی خشک میوہ جات کی مانگ اور قیمتوں میں اضافہ


لاہور(ویب ڈیسک)موسم سرما کا آغاز ہوتے ہی خشک میوہ جات کی مانگ اور قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ۔ مارکیٹ سروے کے مطابق موسم سرما کا آغاز ہونے کے ساتھ خشک میوہ جات کی طلب بڑھ گئی ہے جسے دیکھتے ہوئے دکانداروں نے بھی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں امسال مقامی خشک میوہ جات کی قیمتوں میں 100سے 300روپے تک اضافہ دیکھا جارہا ہے تاہم افغانستان سمیت دیگر ممالک سے آنے والے خشک میوہ جات کی قیمتوں میں فی کلو 300سے 1000روپے تک اضافہ کیا گیا ہے ۔ مارکیٹ میں بادام(چھلکے والا)400سے لے کر 700روپے فی کلو،بادام(گری)1200سے لے کر 1800روپے ،چلغوزہ 4000سے 4500روپے ،کاجو1800سے 2200روپے فی کلو ،اخروٹ(چھلکے والا)500سے 700روپے ، اخروٹ(گری)1800سے 2000روپے فی کلو، انجیر 1200سے 1500روپے فی کلو جبکہ خشک خوبانی 800سے 1000روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی ہے ۔ مونگ پھلی کی قیمتوں میں بھی گزشتہ سال کے مقابلے میں اضافہ دیکھا جارہا ہے ۔جبکہ  گلگت بلتستان ہمارے نمائدہ خاص سے بھی رابطہ کر سکے ہے جو آپ نہایت مناسب قیمت پر گلگت بلتستان کے  خاص خشک میوہ جات گھر تک پہنچائیں گے ۔ کسی قسم کی شکایا ت کی صورت میں ہمارے سوشل میڈیا  ٹیم سے رابطہ کر سکتے ہیں ۔ گلگت بلتستان سے خشک میوہ جات کی قیمتوں میں کافی کمی دیکھی گئی  اور بہ آسانی آپنے گھر تک بھی رسائی ممکن ہوا بادام(چھلکے والا)300سے لے کر 600،اخروٹ(چھلکے والا)400سے 600روپے ،خشک خوبانی 400 سے 700 ، شہتوت 100 سے 200 کلو، اور سلاجیت 40000 کلو اب آپ کراچی، اسلام آباد، لاہور،فیصل آباد سمیت پاکستان کی کسی بھی علاقے میں آڈر کر سکے ہے۔ +923444947792


بائبل کی بڑی پیش گوئی پوری| حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی واپسی| یروشلم میں ایسا واقعہ رونما ہو گیا کہ پوری دنیا میں کھلبلی مچ گئی|حیرت انگیز دعویٰ



یروشلم(ویب ڈیسک)یروشلم میں صدیوں پہلے تعمیر کی گئی دیوار ہے جسے یہودی دیوار گریہ کہتے ہیں اور وہ اس جگہ کو بہت مقدس جانتے ہیں اس دیوار گریہ کو مغربی دیوار بھی کہا جاتا ہے  اس دیوار سے گزشتہ روز ایک زندہ سانپ نکل آیا  یہ سانپ دیکھ کر وہاں دیکھنے والوں نے حیران کن دعویٰ کیا کہ بائبل کی پیشگوئی پوری ہو گئی ہے اس پیشگوئی کے مطابق مغربی دیوار سے ایک زندہ سانپ بل کھاتا ہوا نکلے گا جس کے بعدحضرت عیسٰیؑ دنیا میں تشریف لائیں گے۔ ڈیلی سٹار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز یہ واقعہ پیش آیا اور گریہ کے لیے آئے سینکڑوں افراد نے اس سانپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا  جو لوگ وہاں موجود تھے ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے مغربی دیوار کے پتھروں میں سے ایک سانپ کو باہر نکلتے ہوئے دیکھا وہاں موجود ایک کبوتر سانپ کو دیکھ کر خوفزدہ ہو کر اڑ گیا وہاں موجود لوگوں نے اس کو بائبل کی پیش گوئی قرار دیا ہے۔


قدرت کا تحفہ حسین سمندر لیکن انسانوں کی بے حسی اور غفلت سے سمندر اپنی خوبصورتی کھونے کے ساتھ ساتھ آبی حیات

سکردو بلتستان تاریخ کے آئینے میں | تحریر آصف علی تیمور | ریسرچ سکالر جامعہ کراچی پاکستان


سکردو بلتستان تاریخ کے آئینے  میں: تاریخ کا مطالعہ اہم ہے کیوں کہ یہ ہمیں ماضی کے حالات کو سمجھنے کی طرف توجہ دلاتی ہیں ۔ہم ماضی کی کامیابی اور غلطیوں سے سیکھے تو مستقبل میں ان غلطییوں کو دوبارہ دوہرانے سے بچ سکتے ہیں ۔تاریخ کے مطالعے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ معاشرہ کس طرح تبدیل ہوا اور اس کے ارتقائ  عمل کے اسباب کیا تھے ۔تاریخ یہ بھی بتائی ہے کہ ماضی میں خاص حالات میں کیا فیصلے ہوے  اور ان کے کیا نتایج   برآمد ہوے ۔تاریخ ہمیں استدلال اور تجزیاتی مہارت کیساتھ مسائل کو حل کرنے اور تخلیقی طور پر سوچنے کی صلاحیت دیتی ہیں سر زمین بلتستان کی تاریخ چوتھی صدی سے تاریخ کی کتابوں میں ملتی ہے بلتستان کے بے شمار قدیم نام ہیں  ۔ شوری بوٹن ،لکھ بوٹن،  سری بوتان، ننگ گون سا،  تیبت  خورد، بلو پولو، بلتی،  اسلامی تیبت ، لٹل تبت  ،بہشت کوچک،  تبت آف اپریکاٹ، بام عالم،  پریوں کا دیس،  رانگ یول، فہ یول اور بلتی یل ۔اسلام کی آمد کے بعداس سر زمین کا نام بلتستان موسوم ہوا۔ اس سر ز مین پر مختلف حکمرانوں کی حکومت قائم رہی کیسر پانچویں صدیء سکردو میں  پلوشاہی خاندان 660ءسے 727ء تک رگیالوسترالبو خاندان 900ءسے 1200ء تک اور1200ء میں ابراہیم مقپون کی حکومت رہی جب کہ 850ء میں یبگو بیگ خاندان کی   خپلومیں   1110ء اماچا خاندانکی  شگر میں 1200 ء میں انٹھوک خاندان کی  کھرمنگ میں 1200ء روندو میں خلون چھے کی  حکومت قائم تھی ۔1633ء میں بلتستان کی سلطنت  مشر ق میں پرانگ تک مغرب میں چترال تک شمال میں قراقرم تک جنوب میں زوجی لاتک پھیلی ہوئی تھی ۔1840ء میں بلتستان پر ڈوگروں نے قبضہ کیا جن کی حکومت 108 سالوں پر مشتمل رہی ان کے پہلے حکمران گلاب سنگھ نے 1840 ء سے 1851 تک  رنجرسنگھ نے 1855 سے 1857ء تک پرتاب سنگھ 1855 سے 1925 ء تک اور ہری سنگھ نے 1925 سے 1948 ء تک حکومت کی۔ اہل بلتستان نے 14اگست 1948ء کو صبح سات بجے آزادی حاصل کی ۔جنگ آزادی کے پہلے شہید کا اعزاز ماسٹر غلام رضا سکردو کو ملا وہ اس جنگ آزادی کے پہلے شہید مانے گئے ۔بلتستان  سکردو  روندو شگر کھرمنگ خپلو اور گولتری پر مشتمل ہیں ۔اسلام کی آمد سے پہلے بلتستان میں 6 مذاہب موجود تھے ۔ زرتشی، برن چھوس، پون چھوس، بون چھوس، بدمت اور لاازم اور اسوقت سال کے مہینوں کے نام کچھ اسطرح تھے ۔ گوخپید، سکیلی خپید ،جوگی خپید ، گوغبیار سکیلی غبیار جوگی غبیار  ،گوستونگ، سکیلی ستونگ، جوگی ستونگ،  گورگون، سکیلی رگون،  جوگی رگون تھے  ۔بلتستان میں اسلام کا ظہور 1381ء میں بلتستان کے پہلے مبلغ پیر کبیر علی ہمدانی کی تبلیغ  سے ہوا جو عظیم مبلغ کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔۔آمد اسلام کے بعد لوگوں کے رسم و رواج میں تبدیلیاں رونما ہوئی اسطرح اسلام کی آمد کے بعد سال کے مہینوں کے نام تبدیل کر دیے گئے مورخین ان ناموں کو کچھ اسطرح اسطرح بیان کرتے ہیں ۔ ماتم  ،صفر ، پیغمبر/ عرسی  ۔ گوستونگ  ، سکیل ستونگ   جوگ ستونگ،  ہرمنگ دو / غولوک،  برات ، رمضان  ۔ سکیالزا،  ستونگمہ/  چھون لزا  اور قربان، رکھ دیا گیا سر زمین
بلتستان میں پہلا پرائمری اسکول 1892ء میں ڈوگروں نے سکردو میں قائم کیا ڈوگروں کی حکومت میں 32 پرائمری اسکول تھے ۔1966ءمیں سکردو میں پہلے انٹر کالج کا قیام عمل میں لایا گیا اور 1975ء میں اس کو ڈگری کالج کادرجہ دیا گیا ۔ علمی سلسلے میں پیش رفت ہوتی گئ اور 1988ء میں سکردو میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی متعارف ہوئی ۔1949ء میں بلتستان میں پہلی گاڑی بذریعہ ہوائی جہاز لائے گئ۔ سکردو سے گلگت بس سروس کا آغاز 1981ء میں  نادرن ایریاز ٹرانسپورٹ کارپوریشن اور مشہ بورم ٹورز نے شروع کیا ۔بلتستان میں لوک کہانیاں بڑی مشہورہیں لوگ سرد راتوں میں کہیں  ایک جگہ جمع ہوتے تھے اور کہانیاں سننانے والا کہانیاں سناتا تھا مشور لوک کہانیوں میں کیسار، اپی فڑاژھو، سلمہ چو چو،  شینگ کھن، چندن رگیالوسترالبو اپی نا اپو، ژھونگپہ نا طوطا، پرستانی بادشاہ، سینگ سکم اور دیگر کئی اہم لوک کہانیاں شامل ہیں ۔بلتستان 1880 میٹر سے 3350 میٹر تک سطح سمندر سے بلند ہے یہاں چار موسم پاے جاتے ہیں  خچید(بہار)غبیار(گرما)ستون(خزاں)اور رگون(سرما)بلتستان میں اگائ  جانے والی فصلیں مندرجہ ذیل ہیں گندم  ،جو ، مٹر، کنگی، ترونبہ، سترنجوں، نقسترن اور مکئی وغیرہ ۔اس سر زمین میں یوں  تو بیشمار   جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں چیند  اہم ایک جڑی  بوٹیاں خوروس ، محوتینگ، چھنڈول، شمدون ،اثمان ژھے  لونگژے وغیرہ پر مشتمل ہیں  ۔بلتستان کے حدود 150 بلند چوٹیوں پر مشتمل ہے جن میں سے کچھ اہم مندرجہ ذیل ہیں  چھوغوری(کے-ٹو)8611 میٹر رگشہ  بروم(1)8068 میٹر براڈ پیک 8016 رگشہ بروم 2،3،4اور رگشہ بروم 5 بلند و بلا چوٹیاں ہیں ،۔یہ سر زمین خوبصورت ترین جھلیوں پر مشتمل ہے جن میں سدپارہ جیھل سکردو،   شنگریلا جھیل، کتپناہ جیھل،
جھاربہ جھیل، سوبوجھیل، شوشتر جھیل اور گانھچے جھیل تاریخ کے اوراق کی چھان بین سے پتہ چلتا ہے کہ بلتستان کے مقامی کیھلوں میں اپوش، پولو ،ڈین پولو ،ٹیاکوپولو ، ٹیاپو دونگ،  بجب جون تھب ، ایپ ایپ اور کنگ پولو    
وغیرہ شامل ہیں
تحریر آصف علی تیمور(ریسرچ سکالر جامعہ کراچی پاکستان)

Sunopak

PropellerAds