Efficient tag

#Sunopak

Misali log| مثالی لوگ | ڈاکٹر سیکنہ ریاض | Dr syeda sakina riyaz| by agha karman




 تاریخ کے اوراق جب پلٹنے لگے، تو معلوم ہوتا ہے  کہ انسان  کو اس دنیا میں بھیجنے سے پہلے ہی استاد کی تخلق ہو چکی تھی ، قرآن مجید  سمیت بے شمار احادیث نبوی ﷺ میں  یہ بات بارہا بار آیا ہے کہ  ہم نے محمد ﷺ کو دنیا بنے سے ہزاروں سال پہلے   نور بخشا، اس نور سے علی ؑ کا نور پیدا کیا، ہم نے لوح و قلم بنائے ہم  نےانسان کی ہدایت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بھیجے۔  ہر دور میں  بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے انبیاء ؑ اور نبوت و رسالت  کا سلسلہ جاری رہا، جب نبوت کا سلسلہ  اختتام ہوا تو ان کی آل یعنی آ ل محمد ﷺ کی نسل شروع ہوئی اور آج تک انسانوں کی ہدایت کے لئے قرآن مجید اور   الہیبت ؑ کی سیرت موجود ہے ۔
ہدایت کاچراغ اپنی پوری وجود کے ساتھ ہر دور میں روشنی دیتے رہے مگر ابتداء  سے ہی حضرت انسان  بے راہ روی کا شکار رہا جس کی  وجہ ابلیس ہے ۔اگر ہم دیکھیں تو  حضرت آدم  کے اولات قاتل نکلے  حضرت لوت کی بیوی بدکردار نکلی، حضرت یوسف  کے بھائی حاسد نکلے یا پھر نمرود  خدائی کا دعوا کرتا رہا تو یزید جیسے  ظالم دنیا میں دیکھنے کو ملتا ہے، پوری تاریخ انسانیت ظلم و جبرو خون سے رنگین نظر آتا ہے،خدا وندے عالم نے بے شمار انبیاء ، اولیا، کو دنیا میں ہی امتحا ن میں ڈالے اور وہ سرخ و رو وہوئے، حضرت ادریس ہو یا  حضرت ذولقرنین، حضرت نوح  ہو یا حضرت اسمائیل،یاحضرت محمد ﷺ ہو یا ان کی لخت جگر حضرت فاطمہ ؑ ہو یا ان کی آل  ؑ امتحان سے دو چار رہا  مگر ان میں سےکوئی بھی خدا کے راہ سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے، حق و باطل کی جنگ ،صبر و استقامت کی اولین مثال ، اسلام کی خاطر قربانی کی بے مثال  داستان  کربلا میں دیکھنے کو ملتے ہیں ،
دوسری جانب دیکھیں تولوگ انہیں اُستادوں  یعنی انہی اولایا کرام، انبیاء،سے  ہدایت پا کر  قمبر، مقداد، بابا بلے شاہ،جعفر طیار، شاہ ولی اللہ اور حتاکہ  لوگ حُر بن گئے، یا پھر  سقراط،نیل آرم اسٹرانگ، ارسطو،افلاطون ،جبران بن گیا اس طرح لوگ دنیا میں ہی نام کمایا،  اور دنیا کو دیکھا دیا کہ استاد کی احترام ، عزت، وقار، و مرتبہ کیا ہوتا ہے ۔
اور نظر دھرائے اپنے ہی معاشرے میں تو ہمیں بے شمار لوگ ملتے ہیں جو خود کو  کمال کی منزل تک پہچاتے
 ہیں  اور ہم اُن کو  ان کی کمال پر دیکھ کر رشک تو کرتا ہے، جب کہ اس کی کمال تک پہنچنے میں بھی بے پناہ  محنت، 
مشقت، خود اعتمادی ، بلند سوچ  اور جہد مسلسل کی ضروت ہوتی ہے،  اور اگر ہم با کمال لوگوں کے بارے میں   
مطالعہ کرنے بیٹھ جائے تو قائد اعظم ہو یا سر سید ،میر ظفر ،   لال نہرو،گاندی ، تھامس جیفسنس، جیمز میڈیسن،
 شمودا ککتوارو، خمینی بت شکن، سید علی خامنایٰ ، زو خاندان،یا پھر عبدالقدیر خان ، عبدالسلام، عطاء الرحمن
 سمیت لاکھوں لوگ مل جاتا ہے جو اپنی ہی زندگی میں با کمال رہا اور کچھ ابھی بھی زندہ ہے 
اور وہ ابھی بھی اپنی انچی سوچ ونظر سے کامیابی کی راہوں پر گامزن ہے مگر ظالم معاشرہ ان با کمال لوگوں کو ایکسپٹ نہیں کرتے ۔
ان سب کو جب ذات پات، رنگ ، نسل  کی عینک اُتار کر دیکھے تو سب کے سب   بے مثال لوگ ہے
 اور اپنے اپنے حدود میں اپنی مثال آپ ہیں۔
یہ تو وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں شاید   جیل کی سختی دیکھی  یا پھرغربت  یا یہ وہ لوگ ہیں
 جو اپنے والدین، ایل و عیال  کی نگرانی کی وجہ سے  عروج تک پہنچے بہ الفاظ دیگر یہ وہ لوگ ہیں
 جن کو  اپنے ہی  لوگ کے مکمل تعاون، حمایت،  یا ان کو مکمل رہنمائی ملی اور پورے آب و تاب کے ساتھ اوج سریا تک جا پہنچے۔
ہم اپنی زندگی میں بے شمار لوگوں کو دیکھتے ہیں جو مشکل حالت، غربت و افلاس ، 
تنگ دستی و بے یار و مدد گار ی کی حالت میں بھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے اور عروج کو چھو لیتا ہے۔
 ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے  افراد ہیں جن کو ہم کبھی نہیں دیکھا یا ہم سمجھتے ہیں کہ یہ
 لوگ تو پہنچے ہوئے لوگ ہیں جو  کسی بڑے ادارے میں سرکاری ملازمہ /ملازم تو ہوتے ہیں مگر
 بے شمار مسائل کا شکار رہتے ہیں ، یہ مسائل صرف کچھ خاص بندوں پر   کیوں آتی ہے جو بلند
 مرتبہ رکھتا ہے یا پھر بلندی کی جانب رواں دوان ہوتا ہے، اس بات کا اوپر کے پیرے گراف میں 
واضح انداز میں بیان  ہوا  کہ خدا انسان کو دنیا میں ہی آماتا ہے 
مگر خلاصہ  تذکرہ کروں تو  مسائل سب کے ساتھ ہوتے ہیں اور کچھ لوگ
 ان مسائل سے پریشان ہو کر زندگی سے ہار مانتا ہے ، کچھ لوگ جم کر مقابلہ کرتے ہے ، 
کچھ لوگ اور کوٹ پہن کر پتہ بھی نہیں چلنے دیتے کہ ان کے ساتھ کیسے حالت ہیں
 جب کہ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو اوج سریا تک جا پہنچتا ہے اور دنیا و آخرت میں نام کماتاہے۔
ہاں ایسے ہی ایک سیدہ زادی جو جامعہ کراچی میں اپنی متلقہ شعبے میں روزانہ  وقت پر پہنچ  جاتی ہے
 جو اند ر سے خود حالات  و واقعات کے ظلم و ستم سے   زخمی اور  زخمی ایسی کہ  
نیلم کے کپڑے پر کانٹا لگا کر کھیچ لی ہو ، وہ حالت  ،
 مگر اوپر سے ایساکہ  یہ ایک چراغ ہے جو خود تو پیگل رہی ہے جب کہ  تاریک راہوں میں روشنی کےوجود کو
 برقرار رکھتی ہے۔ ہاں وہ ایک پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن، مہرو محبت و دوستی کا
 پیغام پہنچاتی ہے
 ایک ایسا رہنما جو آدمی کو زندگی کی گم راہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کرتی ہے
  ہزاروں جوانوں کو  علم و آگہی   کی روشنی دیتی ہے،وہ ایک عظیم رہنما ہے جو آدمی کو انسان بنا دیتی ہے،
 آدمی کو حیوانیت کے چنگل سے نکال کر انسانیت کے گر سے آشنا کرواتی ہے، 
وہ خود تو ملکہ نہیں مگر بے شمار لوگوں کو بادشاہ بناتی ہے یا پھر ملکہ بناتی ہے ۔
ہاں وہ جو اپنے سامنے جوان  بھائی پر گولیوں کے امبار تو دیکھے ، ہاں وہ جو اپنے  ہی زندگی میں یعنی   
ابھی تک مسلسل مسائب کا شکار رہتی ہے ، ہاں وہ جو اپنے لخت جگر کی خاطر ہر وقت پ
ریشان رہتی ہے ، ہاں وہ جو اپنے گھڑیا کی خاطر مسکراتی ہے،
 
  ان سارے حالت کے باوجود 
نہ پُوچھ اقبال کا ٹھکانا، ابھی وہی کیفیت ہے اُس کی 
کہیں سرِ رہ گزار بیٹھا ستم کشِ انتظار ہو گا
 
 ہاں میں اسی کی بات کر رہا ہوں جو جامعہ کراچی میں جھوٹی مسکراہٹ سے  پوری کلاس کو خوش کرتی ہے
 مگر ان کی آنکھوں میں آنسوں رہتی ہے ہاں وہ جو حا ل ہی میں آپریشن  کی وجہ سے
 مشکل وقت سے گزر رہی ہے ہاں وہی جو  بیماری کے حالت میں بھی  طالب علم کو
 پی ایچ ڈی تو کروا رہی ہے ہاں وہی جوطلباء و طلبات کی خاطر اپنے مسائب و مشکلات کو چھپا کر ہستی مسکراتی نظر آتی ہے ۔ 
شاید یہ مسکراہت اسی لئے ہوں گے کہ  کہی آنے والی نسل نوع اندھیروں میں نہ رہے ،
کہی ملک خدا داد پاکستان میں رہنے والے طالب علم  ، علم کے روشنی سے دور نہ رہے ،
 شاید اسی لئے کہ وہ وطن عزیز پاکستان کہی علم و عمل میں دیگر ممالک سے پیچھے نہ  رہے ، 
یا شاید وہ ایک ماں ہے اسی وجہ سے یا پھر شاید وہ پوری کلاس کو اپنے محب سمجھ کر پڑھاتی ہے 
کہی میرا محب  انپڑ نہ رہے ، کہی میرا علی کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے ،
 کم از کم میرا بچہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے   میں اُسی کی بات کر رہا ہوں 
جو کلاس میں ہمیں پروفیشنل بنانے کی بات کرتی ہے ، یہ وہی ہے جو ہمیں منجمنٹ ، پلینگ سیکھاتی، 
طالب  علم کو    ہمہ وقت  حاضر دماغ رہنے کی تلقین کرتی ہے، 
ہاں وہی جو ہمیں  ایم۔ ایے کی ڈیگری، ایم فیل اور  پی ایچ ڈی کے قابل بناتی ہے،
  وہی جو ہمارے سامنے  موجود گوہر نایاب جو  خود پی ایچ ڈی ہونے کے
 باوجود آغا خان  یونیورسٹی سے دوبارہ کور س ورک یعنی دوبارہ طالب علمی    کی زندگی میں میں شامل ہو گئ ہے،
شاید اسی حدیث کی مسداق ہے جو حضور ﷺ نے فرمایا تھا کہ
" علم حاصل کرو ماں کی گود سے قبر تک "
 یا اقبال کے اس شعر کی تشریح کر رہی ہے کہ  
کرگس نہیں بنا چاہتی یعنی شاہیں  بن کر رہنا چاہتے ہیں ،  
اور اسی لئے   اقبال انہی لوگوں کے لیے کہتے ہیں !
 خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں ، بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
ہمیں شرم آتی ہے کہ ہم ارسطو، افلاطون کا ذکر ہر محفل میں تو کرتے ہیں مگرا پنے معاشرے میں چھپے ہوئے 
گوہر نایاب نہیں دھونڈ سکتے یا پھر حسدوبغض کی وجہ سے ان  جیسے عظیم اُستاد،
ریسرچ سکالرز، عظیم مفکرومدبر کو  پیچھے رکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ،
 ہمیں شرم آتی ہے کہ ہم ہزاروں سال پروانی کتابوں پر فخر کرتے ہیں کہ یہ کتاب بہت اچھے ہے ،
 اس کتاب میں فلان فلان ریسرچ ہیں فلان فلان موضوعات ہیں مگر 
ہم آج کے دورمیں کی جانے والی ریسرچ اور لیکھی جانے والی آرٹیکلز سے دور دور تک واسطہ نہیں  رکھتے،
 افسوس اس بات کا ہوتا ہے کہ ہم  خصوصا ً  سوشل سائنس کے طالب علم  اپنی کم ظرفی ،
 کم علمی کی اور بے عملی کی  وجہ سے سوشل سائنس کی وہ خدمت نہیں کرتے جو ان اساتذہ کرام نے کیا،
 ہم خود تو کچھ کرنے سے قاصر ہے مگر دوسروں کے ٹانگ کھیچنے کی کوشش کرتے ہیں، 
افسوس تب ہوتاہے جب ہم اپنے متلقہ شعبے سے ہٹ کر دوسرے شعبہ  کے ریسرچ، سائنس و ٹیکنالوجی پر فخر
 کرتے ہیں، یقین مانے ہم وہ خوش قسمت لوگ ہیں جو انسان کی خاطر نہیں ہم انسانیت کی خاطر
 اور انسانیت کی بقاء کے لئے ان عظیم اساتذہ کرام سے  علم حصول  کئیے ، 
اب ہماری ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ ہم اب اپنے معاشرے میں جو ممکن ہو اپنی خدمت سر انجام دے ۔
   اورمستقل جہد مسلسل کرنی ہو گی جو ہمارے اساتذہ کرام کر تی /کرتے ہیں ورنہ یہ ناپید ہونے والے شعبہ او
آنے والی نسل و نوع،  کہی یہ دھرتی ماں ہم سے یہ سوال نہ کرئے کہ تم نے
 اس زمین کے ساتھ کیا وفاء کی، شاید اس وقت ہم لا جوا ب ہو جائے۔
 ہماری دعا ہے کہ تمام اساتذہ کرام خصوصاً ہر دل عزیز ڈاکٹر سیدہ سکینہ ریاض صاحبہ کو طول عمر عطا کریں،
 ان کے لخت جگر کو صحت  کاملہ عطا کریں خدا ان کو مزید کامیاب و کامران کریں آمین۔     

No comments:

Post a Comment

Sunopak

PropellerAds